ایک عشق کی نسلی تاریخ

میں اس کی سانسیں سونگھتا ہوا
دریاؤں اور میدانوں میں داخل ہوا تھا
اور وہ مجھے زرخیز زمین کی طرح ملی تھی
میں تاریک رات میں جنما ہوا مہتاب تھا
اور وہ شریانوں سے خون اچھال دینے والی تمازت تھی
میں ریت کی کشادہ دامنی تھا
اور اس کی پشت سرما کے سورج کی طرح تھی
میں ایڑ لگائے ہوئے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر کودنے والے کا بیٹا تھا
اور اس کی آنکھوں میں
جاٹوں کی خوں ریز صدیاں چنوتی دیتی تھیں
وہ گناہ کی طرح نمکین تھی
اور وہ ذائقہ تھی جو چکھے بغیر زبان پر پھر جاتا تھا
اور میں اس کی گدی میں دانت گاڑ دینے کی حسرت میں تھا
وہ دھرتی پر پھیلا ہوا سرسوں کا کھیت تھی
اور اس کے ہاتھ گندم کاٹنے والی ماں نے بنائے تھے
اور اس کی ناف کے گرد بھرا پرا شکم تھا
اور اس کی گھنڈی میں ایسی جان تھی
کہ اس کا باپ موریا عہد میں پتھر چمکانے کا کاری گر معلوم ہوتا تھا
اور اس کے جسم میں توے پر سرخ کی ہوئی روٹی کی خوشبو تھی
اور میں آنتوں سے اگی ہوئی آرزو تھا
اور میں تلواروں کی موسیقی پر پڑھا ہوا رجز تھا
اور میں تیر کھائے ہوئے گھوڑے سے گری ہار تھا
اور وہ طعنے سے دہکی ہوئی ونگار تھی
اور وہ ایسی جیت تھی
جس کی یاد میں
زمین پر کوئی لاٹھ گاڑی جا سکتی تھی