ایک اک لمحے کو پلکوں پہ سجاتا ہوا گھر
ایک اک لمحے کو پلکوں پہ سجاتا ہوا گھر
راس آتا ہے کسے ہجر مناتا ہوا گھر
خواب کے خدشے سے اب نیند اڑی جاتی ہے
میں نے دیکھا ہے اسے چھوڑ کے جاتا ہوا گھر
گر زباں ہوتی تو پتھر ہی بتاتا سب کو
کس قدر ٹوٹا ہے وہ خود کو بناتا ہوا گھر
اس کا اب ذکر نہ کر چھوڑ کے جانے والے
تو نے دیکھا ہی کہاں اشک بہاتا ہوا گھر
اب اسے یاد کہوں یاس کہوں یا وحشت
مجھ کو آتا ہے نظر خاک اڑاتا ہوا گھر
تھک گیا کیا مرے طولانی سفر سے عادلؔ
سو گیا ساتھ مرے مجھ کو سلاتا ہوا گھر