ایک ہی پل میں بدلتا ہے نظارہ سارا

ایک ہی پل میں بدلتا ہے نظارہ سارا
اور اس پل کے لیے باقی تماشا سارا


زندگی نے نہ کسی امتحاں کو دہرایا
تجربہ کام ہی آیا نہیں اپنا سارا


دھوپ میں جلنا ہے اس کو جو شجر بن کے جیے
اس کے سائے میں رہے خوش یہ زمانہ سارا


اس کی رحمت کا خزانہ وہ لٹائے ایسے
جس نے مانگا نہیں جو اس نے وہ پایا سارا


بخش مجھ کو نہ ادھوری کوئی نعمت مولیٰ
یا تو دریا ہی دے پورا یا تو صحرا سارا


میں نے بازار میں پورا ہی رکھا تھا خود کو
کوئی ایسا نہ ملا جس نے خریدا سارا


عکس ثابوت تو ہے ٹوٹے ہوئے شیشے میں مگر
ایک ٹکڑا بھی گنوایا تو گنوایا سارا


ہوتا ہے بھیڑ کی فطرت سے مداری واقف
جب تلک ختم نہ ہو کھیل ہے مجمع سارا


اتنی وسعت نہیں دامن میں نواؔ کے یاروں
پیار کیسے وہ سمیٹے کہو اتنا سارا