ایک اور مشورہ
بستیاں ہوں کیسی بھی پستیاں ہوں جیسی بھی
ہر طرح کی ظلمت کو روشنی کہا جائے
خاک ڈالیں منزل پر بھول جائیں ساحل کو
رخ جدھر ہو پانی کا اس طرف بہا جائے
ملک بیچ ڈالیں یا آبرو رکھیں گروی
جیسا حکم حاکم ہو اس طرح کیا جائے
شور میں صداؤں کے اجنبی ہواؤں کے
کون سننے والا ہے؟ کس سے اب کہا جائے!
گفتگو پہ پہرے ہیں ہر طرف کٹہرے ہیں
راستے معین ہیں ہر قدم پہ لکھا ہے
کس جگہ پہ رکنا ہے! کس طرف چلا جائے
دل کی بات کہنے کا اک یہی طریقہ ہے
چھپ کے ساری دنیا سے اب گھروں کے کونوں میں
آپ ہی سنا جائے آپ ہی کہا جائے