ایک اشک آلود اپیل

امرت سر کی تنگ گلیوں اور اس کے غلیظ بازاروں سے بھاگ کر جب میں بمبئی پہنچا تو میرا خیال تھا کہ اس خوبصورت اور وسیع شہر کی فضا فرقہ وارانہ جھگڑوں سے پاک ہو گی مگر میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ چند مہینوں کے بعد ہی بمبئی میں ہندو مسلم فساد شروع ہوا اور دیر تک جاری رہا۔ فساد کا موضوع وہی تھا۔  مندر مسجد، کئی انسان اس فساد میں ہلاک ہوئے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے یہ افسوسناک مناظر دیکھے اور دل ہی دل میں کڑھتا رہا، پھر میں نے قلم اٹھایا اور ذیل کی اپیل اہلیان بمبئی کے نام شائع کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ’’غیرت مند‘‘ مسلمان مجھے مارنے کے لئے آئے۔ میں ان کی مار سے کیسے بچا، یہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔
آخر وہی ہوا جس کا کھٹکا تھا۔ ’’سبھا منڈپ‘‘ کے قضیے نے افسوسناک صورت اختیار کی اور بمبئی کی پرسکون فضا میں ہنگامہ پیکار نے اضطراب پیدا کر دیا۔ ہماری آنکھوں نے ایسے ایسے مظالم اور انسانیت کش مناظر دیکھے جس پر ہر حساس قلب خون کے آنسو روئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ چاقو چلے، پتھر پھنکے، لٹھ بازی ہوئی، ڈاکے ڈالے گئے اور آناً فاناً بمبئی کے گلی کوچوں میں خون کے چھینٹے اڑنے لگے۔ ہندوستان حصول آزادی کی منزل سے گھسیٹ کر ایک وسیع اور تاریک کھائی میں پھینک دیا گیا۔
ان افسوسناک فسادات پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔ وہ حضرات جو آزادی کی قدر کرتے ہیں اور جن کے قلوب اس امر سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ اس قسم کے جھگڑے اور فساد ملک اور قوم کے لئے بے حد مہلک ہیں، یقیناً رو رہے ہوں گے۔ ان کی افسردگی اور رنجیدگی حق پر مبنی ہے۔ کوئی ذی عقل اور صاحب ہوش و فہم انسان خون بہانا پسند نہیں کرتا سوائے ان کے جو اپنے اذہان کی آغوش میں بھیانک جرائم و شدائد کی پرورش کرتے ہیں۔ کوئی انسان اپنے بھائی کے گلے پر چھری پھیر کر اس کی رگوں سے بہتے ہوئے خون کا تماشا کرنے سے مسرور نہیں ہو سکتا۔ کسی شخص کی بھی یہ خواہش نہیں ہو سکتی کہ وہ لاشوں کے انبار پر فرط مسرت سے رقص کرے۔۔۔ پھر کیا وجہ ہے کہ چشم فلک نے بمبئی کے سینے پر خون کے دھبوں کو بکھرتے دیکھا؟ اس سوال کے جواب کے لئے ہمیں ان فسادات کے عواقب و عواطف کو بغور دیکھنا چاہئے اور معلوم کرنے کی سعی کرنا چاہیئے کہ ان خونیں حادثات کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔
دنیا میں جہاں اہل درد اور انسانیت دوست انسان ہیں، وہاں ایسے افراد بھی ہیں جن کا بیشتر وقت تلواروں اور چھریوں کی دھاریں تیز کرنے میں گزرتا ہے اور جو ہر وقت ایسے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ وہ اپنے تیز کئے ہوئے ہتھیار لوگوں کے ہاتھ میں دے کر خونریزی کا سماں دیکھیں اور پھر خون کے اس تالاب سے اپنی حرص اور اپنے مفاد کی پیاس بجھائیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو جنگلی لوگوں کی بربریت کو از سر نو ہندوستان کی فضا میں تازہ کرنے کے خواہش مند ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو فضا کو غیر محفوظ کر کے اپنے انفرادی مفاد کو محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ بازاروں میں دیگر اجناس کی طرح انسانی گوشت پوست کی دکانیں بھی ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہندوستان کے ہر عضو کو مفلوج دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔ جو اپنی مادر وطن کو آزاد دیکھنے کے خواہشمند نہیں۔۔۔ جو مکار ہیں، غدار ہیں، جن کی رگ رگ اور نس نس میں بدی کا خون موجزن ہے، جن کی زندگی کا ہر سانس ان کی ریاکاری، دغابازی، ابلہ فریبی اور انسان دشمنی کے ساتھ وابستہ ہے جن کے تنفس میں جہنم کی آگ کے جھونکے ہیں، بدی کے تعفن کے بھبھکے ہیں۔ تین دمڑی کا پیسہ جن کا خدا ہے اور جو اس معبود کی عبادت میں شب و روز محو رہتے ہیں۔
یہ لوگ لیڈر ہیں۔۔۔ ملک و قوم کے نام نہاد رہنما۔۔۔ بلی کے بچے، اوپر سے دیکھو تو نرم نرم روئیں اور اندر تیز تیز ناخن۔ تقریریں سنیئے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمام دنیا کا درد سمٹ کر ان کے سینوں میں جمع ہو گیا ہے اور جب ان کے اندر جھانک کر دیکھا جائے تو حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے۔ ان کا ایمان و ایقان، ان کا جذبہ خدمت مذہب و ملت، ان کی طہارت، ان کے بلند بانگ وعظ اور ان کا درد سب کچھ اصلی روپ میں نظر آتا ہے اور حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کے دامن پر اس قدر بدنما دھبے بھی موجود ہیں۔
بمبئی کی موجودہ ہنگامہ خیزیاں اور خونریزیاں یقیناً رک سکتی تھیں اور ہندو مسلمانوں کے جذبات کو یقیناً ان خراشوں سے بچایا جا سکتا تھا اگر جانبین تحمل اور بردباری سے کام لیتے اور ٹھنڈے دل سے تمام معاملے پر غور کر کے مفاہمت کی کوئی راہ نکالتے۔ برادرانہ اخوت کو کام میں لا کر ملک کو اس مہلک ضرب سے بچانے کی کوشش کرتے۔ چند حضرات نے اس قسم کی کوششیں کیں مگر مقام تاسف ہے، کہ ان سانپوں کی پھنکاروں (میرا اشارہ حافظ علی بہادر خان کی طرف تھا) نے بنا بنایا معاملہ بگاڑ دیا، جو اپنے زہریلے سانسوں کے مظاہرے کے لئے اس نوع کے لمحات کو بہت مناسب اور مقصد پرور خیال کرتے ہیں۔ جن لیڈروں نے مذہب کا ڈھنڈورا پیٹ کر اور اپنا گلا پھاڑ پھاڑ کر شہریوں کے جذبات کو مشتعل کیا ہے اور یہاں کے گلی کوچوں کی سلوں پر ایک خونچکاں داستان کے نہ مٹنے والے حروف کندہ کئےہیں، انہیں اس حقیقت سے باخبر ہونا چا ہیئے کہ ملک میں ایسی صاحبِ فہم و دانش جماعت موجود ہے جو ان کی شر انگیزیوں کو خوب سمجھتی ہے اور جو انہیں نفرت کی نظروں سے دیکھتی ہے۔
قصر آزادی کی تعمیر فرقہ وارانہ فسادات کے شکار انسانوں کے لہو اور خود غرض لیڈروں کے نمائشی پروپیگنڈے سے نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ ان لوگوں کا وجود نہ صرف آزادی اور اخوت کی راہ میں سنگ گراں ہے بلکہ انسانیت کے جسم پر ایک کاری ضرب ہے۔ یہ لوگ اصلی ہمدردان وطن کی گردنوں پر مرد تسمہ پا کی طرح سوار ہیں۔ اس لئے ضرورت ہے کہ ان فساد پرور لیڈروں کا مقاطعہ کیا جائے اور ہر چہار اکناف سے ان پر لعنتیں برسائی جائیں جو ہر کام پر نوجوانان وطن کی امیدوں اور ان کے ولولوں کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔