اک مس سیمیں بدن سے کر لیا لندن میں عقد
ہیں! یہ تم نے کیا کیا؟ ’’اک مس سیمیں بدن سے کرلیا لندن میں عقد۔‘‘ جی ہاں! حضرت! کر لیا لندن میں عقد! آخر کوئی وجہ؟ کیوں کر لیا لندن میں عقد؟ بس یہ نہ پوچھیے، کیوں؟ کس لیے؟ کیا آپ کو ہندوستان میں کوئی پری جمال ایسی نہیں ملتی تھی کہ آپ کو معشوقان یورپ کی تلاش ہوئی۔ کیا آپ کو ہندوستان میں کوئی سیمیں بدن نہیں نظر آتی تھی کہ خدا مان۔۔۔ والا کو مسانِ یورپ کی طرف نظر کرنی پڑی؟ بھلا ایک مسلمان کے لیے یہ بات نازیبا نہیں ہے کہ وہ اپنی تعلیم قوم اور خاندان چھوڑ کر غیر قوم، غیر مذہب، غیر خیال، غیر طبیعتوں سے تعلق پیدا کرے؟ کیوں جناب! شرمائیے نہیں، بغلیں نہ جھانکیے، ادھر دیکھیے کیا آپ کے کانشنس نے آپ کو اس امر کی اجازت دی ہے کہ آپ بلا ضرورت اس قوم سے قومی نیچرل تعلق پیدا کریں کہ جن میں اور آپ میں قدرت نے متضاد طبیعتیں رکھی ہیں؟ واہ حضرت وا! آپ بھی بس پرانی لکیرکے فقیر نکلے، ابھی تک پرانے خیالات سے آپ کا دماغ خالی نہیں ہوا ہے۔ ہنوز نئی روشنی کی تیز شعاعوں سے محروم ہے۔ ورنہ اس قدر تاریکی اس میں نہ ہوتی۔ آج کل کی حالت سے آپ بالکل بے خبر ہیں اور وہی پرانا خواب دیکھ رہے ہیں۔ فی زمانہ اس امر کی سخت ضرورت ہے کہ فاتح قوم سے اہالی ہند قومی رابطہ پیدا کریں، اپنا میل جول بڑھائیں، تاکہ ان میں ہم میں انس پیدا ہو، اور وہ وحشت نہ رہے جو ہماری ترقی میں (جو فاتح قوم کی توجہ پر موقوف ہے) حائل ہوتی ہے۔ علاوہ اس کے انہیں اس امر کا موقع دیا جائے کہ وہ اپنے شکوک کو جو مسلمانوں کی جانب مذہبی اور پولیٹیکل امور میں ان کے دلوں میں جمے ہوئے ہیں رفع کریں، اس لیے اگر یہ قوی تعلق پیدا ہو جائے تو ہمیں ان امور کا بہت اچھا موقع ہاتھ آئے گا۔ پس اسی خیال سے اس خادم قوم نے بھی،’’اک مِس سیمیں بدن سے کر لیا لندن میں عقد‘‘کیا خوب! اے جناب! کیا فاتح قوم سے میل جول بڑھانے کے یہی معنی ہیں کہ ان سے یہ تعلق پیدا کیا جائے؟ کیا مواکلت، مشاربت، معاہدت وغیرہ باعث میل جول کے نہیں ہیں؟ ان الاسباب المحبۃ اربعۃ اشیاء المجاسلۃ والمکالمۃ والمواکلۃ والمشاربۃ۔ پس میل جول کے لیے یہ باتیں کچھ کم ہیں اور آپ کا یہ کہنا کہ ان کی توجہ ہماری ترقی کا ذریعہ ہے محض غلط ہے۔ آپ کسی ترقی یافتہ قوم کی مثال نہیں پیش کر سکتے کہ گورنمنٹ یا فاتح قوم کی توجہ سے ترقی پائی ہو، بلکہ جن قوموں میں سیلف ہیلپ کا خیال قدرت نے پیدا کر دیا ہے، انہوں نے خود ترقی کے اسباب پیدا کیے۔ خود مدارس جاری کیے، خود علوم و فنون کی تکمیل کے لیے دارالعلوم قائم کیے، خود آرٹ کے اسکول کھولے بلا امداد غیر۔ اپنے خیال اور اپنی مدد سے بیشک وہ ترقی کر گئے۔ چنانچہ اس کی مثال کے لیے اہل یورپ کافی ہیں۔ ایسے موقعوں میں گورنمنٹ سہارا ضرور دیتی ہے، اور یہ اس کا فرض ہے مگر اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ۔۔۔ جواب ندارد۔۔۔ (کچھ دیر بعد) اچھا جانے دیجیے، یہ وجہ نہ سہی۔ لیکن فرمائیے جناب اسلام نے تو ہم کو اہل کتاب سے اس تعلق کی اجازت دی تھی۔ پھر جانے گفتگو کیا ہے؟ ہاں آئیے! اب آپ مذہب کے دامن گیر ہوتے ہیں۔ سنئے مذہب اسلام نے جس زمانے میں اس امر کی اجازت دی تھی بلا اس کے اس زمانے میں چارہ بھی نہ تھا۔ علاوہ اس کے مذہب اسلام کی اجازت دینی یہ معنی رکھتی ہے کہ مذہب اسلام انسانی ضرورتوں کے لیے ایک حد تک آزادی دینے والا ہے، اور اس میں نہایت تسہیل ملحوظ رکھی گئی ہے جس سے اس کی جامعیت اور مانعیت متحقق ہو، اور اکثر مواقع میں جب کہ اتفاقیہ اس تعلق کی ضرورت ہو تو اہل کتاب سے مذہب کی ممانعت بیچ میں حائل نہ ہو، نہ یہ کہ بلا کسی خیال مضرت کے ہر زمانے میں اس پر زور دیا جائے۔ علاوہ اس کے اس زمانے میں آج کل کی قوم فاتح، مفتوح تھی۔ ہر طرف اسلامی سلطنت چھائی ہوئی تھی اس لیے اس تعلق سے مسلمانوں کو ہرگز ان مضرتوں اور اثروں کا خوف نہ تھا، جس قدر کہ آج برعکس حالت پیش ہو جانے سے در پیش ہے۔ جس طرح کہ ہم مفتوح اور یورپین قوم فاتح ہے، اس طرح اس تعلق میں بھی عورت فاتح اور مرد مفتوح رہےگا۔ ایسی حالت میں اندازہ ہو سکتا ہے کہ اولاد پر کس قدر عورت کے اخلاق و عادات اور مذہب کا برا اثر پڑے گا۔ بیسیوں باتیں مذہب میں ایسی جائز رکھی گئی ہیں، جو اکثر مواقع کے لحاظ سے شخصی فوائد پر مبنی ہیں۔ پس اس سے اس کی بنا پر قومی مضرتوں سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن یہ تو فرمائیے کہ اس تعلق سے کیا برا اثر اولاد پر پڑ سکتا ہے؟ اولاد پر باپ کا اثر زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے اور میرے نزدیک یہ بات مسلّم سی معلوم ہوتی ہے۔ ہاں آپ اگر کوئی ایسا واقعہ پیش کردیں کہ جس سے اس امر کی تصدیق ہو تو یہ آپ کا فرمانا صحیح قرار دیا جائے، ورنہ آپ نے کہا اور میں نے مانا۔ کیا آپ کو معلوم نہیں! آپ تو پڑھے لکھے آدمی معلوم ہوتے ہیں یعنی مور کی ہسٹری۔۔۔ آپ نے دیکھی ہوگی! لیجئے میں وہاں کا ایک تاریخی واقعہ جو اسلامی سلطنت میں واقع ہوا ہے پیش کرتا ہوں۔ اس سے آپ اندازہ فرما لیجئے گا کہ آج کل یورپین سلطنت ہے اور اس زمانے میں اسلامی بادشاہت تھی۔ لیکن پھر ایسا واقعہ پیش آیا۔ اس واقعہ کو مسٹر شرر کے فلورا ناول میں بھی آپ دیکھ سکتے ہیں۔ اندلس میں جب کہ عبد الرحمن ثانی کی سلطنت تھی، اور اس نے عیسائیوں کو مذہبی آزادی دے رکھی تھی۔ ایک بھائی بہن واقعے کے اعتبار سے عجوبہ گزرے ہیں۔ ایک لڑکی تھی جس کا نام فلورا تھا اور اس کا بھائی زیاد نامی تھا۔ فلورا کا باپ ایک مسلمان اندلسی متقی مسلمان تھا جس نے ایک عیسائی حسین عورت سے جائز تعلق پیدا کر لیا تھا، اس سے فلورا پیدا ہوئی، اور باوجودیکہ مسلمان باپ نے اسلامی نام رکھ کر احباب میں مشتہر بھی کر دیا، مگر اس عیسائی عورت نے اپنے طریقے کے موافق اپنی زبان میں اس کا نام فلورا رکھا۔ باپ ہر وقت گھر میں رہ نہیں سکتا تھا۔ ماں کا سایہ اس پر ہر روز رہا کرتا تھا۔ اس لیے ماں نے فلورا کے دل میں عیسائی مذہب کی خوبیاں اچھی طرح جما دیں۔ ماں مرگئی، باپ مرگیا، بھائی زیاد صرف باقی رہا۔ پادریوں نے فلورا کو حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ ایک مسلمان کے پنجے سے نکل جائے۔ فلورا کو زیاد نے ہر چند سمجھایا کہ مذہب اسلام برحق ہے مگر پتھر پر جونک نہ لگی۔ معاملے نے طول پکڑا۔ زیاد کے ہاں عیسائینیں آنے لگیں، اور اس کے نکالنے کی کوشش کرنے لگیں۔ زیاد نے بھی خوب انتظام کیا مگر بے سود۔ فلورا نکلی اور کہاں کہاں پہنچی۔ زیادہ اس کی تلاش میں پریشان ہوا۔ کہاں کہاں کی خاک چھانی، اور کدھر کی مٹی اڑائی۔ بالآخر بہت سخت واقعے اس کی بدولت پیش آئے، سلطنت کو حیرانی ہوئی، رعایا کو پریشانی۔ زیاد اور فلورا دونوں برباد ہوئے، اور دیکھنے والے افسوس ناک نگاہ سے دیکھتے رہے۔ الغرض باوجود یہ کہ فاتح قوم مسلمان تھی مگر پھر بھی اس تعلق نے کیا کیا گل کھلائے، کتنے خانماں برباد ہوئے، کتنے جان سے گئے۔ تمام اسلامی اور عیسائی دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ کس لیے ہوا؟ یہ سب اس تعلق کی وجہ سے ہوا۔ اس کم بخت تعلق نے یہ سب کچھ کیا، جس کی آپ یہ کچھ تعریف کر رہے ہیں۔ اب غور فرمائیے کہ آج کل جب کہ فاتح قوم کا اثر بالکل رعایا پر چھایا ہوا ہے۔ فاتح قوم سے یہ تعلق کیا ایسی صورت نہیں پیدا کرتا، کر چکا ہے اور ضرور کرےگا۔ جواب ندارد۔۔۔ ادھر ادھردیکھ کر۔ اچھا (کھانس کر) اسے جانے دیجیے تم۔۔۔ (کھانس کر) مگر اس کا کیا جواب ہے کہ ہم ایسے تعلیم یافتہ لوگوں کو تعلیم یافتہ عورتوں کی ضرورت ہے۔ (ایں از ہندوستانیاں مفقود) پھر کیا کیا جائے؟ مجبوراً ہمیں دوسری تعلیم یافتہ معزز قوم (ذراتبسم کے ساتھ) کی طرف توجہ کرنی پڑتی ہے۔ کیا ہم ایسے تعلیم یافتہ جاہلہ عورتوں کی زبانی شگن شگون بھوت پریت کی جاہلانہ اوہام پرستی کی آوازیں سن سکتے ہیں۔ واقعی یہ آپ کا ارشاد ایک پہلو سے بجا ہے جیسا کہ جناب چودھری خوشی محمد ناظر نے رام پور کانفرنس کے لکچر میں ظاہر کیا ہے کہ اس جہالت نسواں سے یہ اچھا عذر آپ کے ہاتھ آ گیا ہے، اور جب تک تعلیم نسواں کا خیال ہندوستان میں نہ ہوگا، اس عذر کا آپ کو موقع ملتا رہےگا۔ لیکن حضرات نہیں اگر آپ محبِّ قوم ہیں تو آپ کو چاہیے کہ آپ تعلیم نسواں کو جاری کریں اور عورتوں کو اس قابل بناکے ان سے عقد کریں تاکہ یہ ضرورت قوم کو تعلیم پر آمادہ کرے، نہ یہ کہ آپ یہ عذر پیش کر کے غیر قوم کی تعلیم یافتہ لیڈیوں کو اپنے پہلو میں بٹھا کے مزے میں (خاک مزے میں) زندگی بسر کریں اور اس سے مستغنی ہو جائیں۔ سوا اس کے جن ہندوستانیوں نے یہ تعلق کیا ہے ان میں اکثر ایسے نکلیں گے جو اپنے اس کیے پر پریشان ہو رہے ہیں۔ اور اس خرچ اور آزادی کے متحمل نہیں ہو سکتے جو اس سبب سے کرنے پڑتے ہیں۔ کیا آپ کسی ایک معزز شحص کے حالات سے بھی واقف نہیں جس نے یہ تعلق پیدا کر کے تقریباً اپنی زندگی تلخ کر رکھی ہو؟ مگر افسوس ہے کہ اس پر بھی آپ ایسے ناواقفوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں اور یورپ کی سفید رولیڈیوں کو دیکھ کر چکا چوند ہوجاتی ہیں۔ مگر ہاں! یہ ضرور ہے کہ آپ لوگ ایک حد تک معذور اور مجبور بھی ہیں۔ یہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ لندن میں تعلیمی خیال سے ایک جوشیلے نوجوان کا جانا اور وہاں چاروں طرف حسن حسن کا نظر آنا ایک ایسا نظارہ ہےجسے دیکھ کر بے اختیار نہ ہونا مشکل امر ہے۔ ہمارے مکرم دوست سید اکبر حسین صاحب سیشن جج سہارنپور نے تعلیم یافتہ گروہ پر سے اس اعتراض کو رفع کرنے کی بڑی کوشش کی ہے، اور ایک عجیب و غریب دلچسپ نظم لکھی ہے۔ اس نظم نے ہم کو بہت ہی لطف حاصل کرنے کا موقع دیا ہے۔ ہم نہیں پسند کرتے کہ اس نظم سے ناظرین الپنچ محروم رہیں۔ ایسی حالت میں کہ اس کا پہلا مصرع عنوان پر ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ اس نظم میں انہوں نے کیسے یہ اعتراض رفع کیا ہے۔ اس کی داد ناظرین پر چھوڑتا ہوں۔ قطعہاِک مس سیمیں بدن سے کر لیا لندن میں عقداس خطا پر سن رہا ہوں طعنہ ہائے دلخراشکوئی کہتا ہے کہ بس اس نے بگاڑی نسل قومکوئی کہتا ہے کہ یہ ہے بدخصال و بدمعاشدل میں کچھ انصاف کرتا ہی نہیں کوئی بزرگہو کے اب مجبور خود اس راز کو کرتا ہوں فاشہوئی تھی تاکید لندن جاؤ انگریزی پڑھوقوم انگلش سے ملو سیکھو وہی وضع و تراشجگمگاتے ہوٹلوں کا جاکے نظارہ کروسوپ و کاری کے مزے لو چھوڑ کر یخنی و آشجب عمل اس پر کیا، پریوں کا سایہ پڑگیاجس سے تھا دل کی حرارت کو سراسر انتعاشسامنے تھیں لیڈیان زہرہ وش جادو نظریاں جوانی کی امنگ اور ان کو عاشق کی تلاشدونوں جانب تھا دلوں میں جوشِ خون فتنہ زادل ہی تھا آخر نہیں تھی برف کی یہ کوئی قاشاس کی چتون سحر آگیں اس کی باتیں دل رباچال اس کی فتنہ خیز اس کی نگاہیں برق پاشجب یہ صورت تھی تو ممکن تھا کہ ایک برق بلادست سیمیں کو بڑھاتی اور میں کہتا دور باشبارہا آتا ہے اکبرؔ میرے دل میں یہ خیالحضرت سید سے جاکر عرض کرتا کوئی کاشدرمیان قعر دریا تختہ بندم کردۂباز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باشاس نظم میں حضرت اکبر نے جو جو کیفیتیں بیان کی ہیں ان کی وہ اشخاص تصدیق کر سکتے ہیں جو اس کوچے میں قدم رکھ چکے ہیں۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیپ کا شعر لندن جانے والوں کے لیے بہت ہی حسب حال ہے۔ راقم حضرت آزاد رقمبقلم ابو الکلام محی الدین احمد دہلوی از کلکتہ
نوٹ(۱) حضرت اکبر الہ آبادی کی یہ نظم مکمل نہیں۔ اس میں تین شعر کم ہیں، اور بعض ترتیب میں اصلی کے برخلاف بھی ہیں۔ البتہ اشعار کی اصلاح اصل کے مطابق کر دی ہے۔