عید الاضحیٰ مبارک: گوشت احتیاط سے کھائیے، رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات پر عمل کیجیے
عیدِ قربان پر گوشت کا پکنا ہوتا ہے کہ ہم اس پر پل پڑتے ہیں اور پھر اسے ٹھونس ٹھونس کر اپنے اندر پورے سال کے لیے زخیرہ کرنے کی سعی لاحاصل میں جت جاتے ہیں ۔ ذہن میں یہ خیال ابال پیدا کر رہا ہوتا ہے کہ یوں گوشت کو اپنے اندر بھرنے سے شاید ہماری صحت بہت اچھی ہو جائے گی یا ہم بہت طاقتور ہو جائیں گے لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلتا ہے۔
عید قرباں کا موقع ہے ۔ خوشیوں کی ریل پیل ہے ۔ صاحبانِ استطاعت قربانی کی سعادت حاصل کر رہے ہیں اور جو اس قابل نہیں وہ اللّٰہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت سے رزق کریمی سے مستفیض ہو رہے ہیں ۔ کئی گھر ہمارے معاشرے میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں محض اسی رزق کریمی کے طفیل عید الاضحی کے موقع پر ہی گوشت پکتا ہے ۔ مہنگائی نے زندگی کو اس قدر دشوار کر دیا ہے کہ ضروریات زندگی کی بہم فراہمی ہی دشوار ہوتی ہے ایسے حالات میں گوشت پکانا عام دنوں میں سب کی استطاعت میں نہیں رہا ۔ ایسے میں عید الاضحی کا سب کو جس بے صبری سے انتظار ہوتا ہے ۔۔۔ اس کے آ جانے پر کھانے میں ہم اکثر اس سے بھی زیادہ بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔
گوشت کھائیے ضرور مگر ذرا احتیاط سے!
عیدِ قربان پر گوشت کا پکنا ہوتا ہے کہ ہم اس پر پل پڑتے ہیں اور پھر اسے ٹھونس ٹھونس کر اپنے اندر پورے سال کے لیے زخیرہ کرنے کی سعی لاحاصل میں جت جاتے ہیں ۔ ذہن میں یہ خیال ابال پیدا کر رہا ہوتا ہے کہ یوں گوشت کو اپنے اندر بھرنے سے شاید ہماری صحت بہت اچھی ہو جائے گی یا ہم بہت طاقتور ہو جائیں گے لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلتا ہے ۔ فوڈ پوائزنگ ہوتی ہے ۔۔۔ایسڈٹی کے مسائل جنم لیتے ہیں یا ہیضہ وغیرہ ہوتا ہے اور ہم پہلے سے زیادہ لاغر اور کمزور ہو جاتے ہیں ۔ بعض افراد پہلے ہی کسی طبی مسئلے سے دوچار ہوتے ہیں عید پر بے احتیاطی کے نتیجے میں مزید مسائل بگاڑ بیٹھتے ہیں۔
مسلمان متوازن غذا کھاتا ہے
اسلام سب سے متوازن اور مکمل دین ہے ۔ ہمیں زندگی کے تمام معاملات میں اس سے مکمل رہنمائی ملتی ہے ۔ ہماری زندگی کے اکثر مسائل دینی احکامات اور تعلیمات سے دوری کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔ اگر ہم اپنے تمام معاملات میں اسلام سے رہنمائی حاصل کریں تو ہم اکثر مسائل کو پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کر سکتے ہیں ۔ ہمارے دین نے بسیار خوری کو ناپسند فرمایا ہے ۔ پیارے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے:
"مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔" ( صحیح بخاری ، 2:812)
گویا اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق مومن اور کافر کے کھانے میں ایک اور سات کا تناسب ہے ۔ سرکار دوعالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اس فرمان عالیشان میں استعارے کی زبان استعمال کی ہے ۔ بسیار خوری کو کافرانہ روش قرار دیتے ہوئے اس سے دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے ۔ ایک مومن کے لیے ہر وہ عمل کابل نفرت ہوتا ہے جو اسے کفار سے ملاتا ہے اس لیے آقا علیہ السلام نے یہ استعارہ استعمال کیا۔
حد سے زیادہ کھانے والے کو خدا پسند نہیں کرتا
سرکار دوعالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا:
"اللّٰہ تعالیٰ بھوک سے زیادہ کھانے والے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔" ( کنزل الاعمال: 44:29)
اس حدیث مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہم سال کے دیگر ایام میں عام طور پر اور عید الاضحی کے دنوں میں خاص طور پر اپنے طرز عمل کا اگر احاطہ کریں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہم رب العزت کے اس ناپسندیدہ عمل کو انتہائی پسندیدگی کے ساتھ اپنائے ہوئے ہیں ۔ بسیار خوری جب رب العالمین نے ناپسند فرمائی ہے اس کے پیارے حبیب علیہ السلام نے ناپسند فرمائی ہے تو ہم کیوں اس میں مبتلا ہو کر خود کو مشکل میں ڈالتے ہیں ۔
ایک اور حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے! ارشاد ہوا:
" جو شخص دنیا میں جتنی شکم پروری کرے گا قیامت کے دن اسے اتنا ہی لمبا عرصہ بھوکا رہنا پڑے گا۔"
اس حدیث مبارکہ میں ناصرف زیادہ کھانے کی عادت کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے بلکہ قیامت کے دن ، جو ویسے بہت کٹھن ہوگا ، اس دن زیادہ دیر بھوک برداشت کرنے کی سزا کا ذکر کر کے باقاعدہ اس عادت کے انجام سے ڈرایا بھی گیا ہے ۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
" انسان کی کمر سیدھی رکھنے کے لئے چند لقمے ہی کافی ہیں اور زیادہ کھانے کو جی چاہے تو یاد رکھو کہ معدہ کا ایک تہائی حصہ کھانے کے لیے اور ایک تہائی حصہ مشروبات کے لیے (استعمال کرو) اور ایک تہائی حصہ سانس لینے (میں آسانی) کے لیے ہے " ( سننے ماجہ: 248)
گوشت نعمت کے بجائے زحمت نہ بن جائے
ہمارے عید الاضحیٰ کے موقع پر درپیش آنے والے اکثر صحت کے حوالے سے مسائل کی بنیادی وجہ ہی شاید یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنے معدے کے کھانے والے خانے کے ساتھ ساتھ مشروبات والے خانے میں بھی گوشت ہی ٹھونس دیتے ہیں اور بعض کرم فرما تو سانس لینے والے حصے میں بھی کھانا ہی ذخیرہ کرنے پہ تل جاتے ہیں ۔ ایسے میں بے چارہ معدہ بھی کہاں تک برداشت کرے!
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس خوشی اور مسرت کے خوبصورت تہوار کو اللّٰہ اور رسول صل اللہ علیہ وسلم کی خوشی کے تابع کیا جائے ۔ اس سے خوشیوں میں برکت اور اضافہ بھی ہو گا اور رب اور رسول صل اللہ علیہ وسلم کی رضا بھی حاصل ہو گی۔