عید کی خریداری

مسلماں قرض لے کر عید کا ساماں خریدیں گے
جو دانا ہیں وہ بیچیں گے جو ہیں ناداں خریدیں گے
جو سیاں شوق سے کھائیں وہ سویاں خریدیں گے
مرکب سود کا سودا بہ نقد جاں خریدیں گے
مسلمانوں کے سر پر جب مہ شوال آتا ہے
تو ان کی اقتصادیات میں بھونچال آتا ہے
بہم دست و گریباں سیلز مین اور ان کے گاہک ہیں
وہ غل برپا ہے جیسے نغمہ زن جوہڑ میں مینڈک ہیں
مزاجاً روزہ دار شام بارود اور گندھک ہیں
اور ان میں نظم اور ضبط اور روا داری یہاں تک ہیں
کہ شدت بھوک کی اور پیاس کی ایسے مٹاتے ہیں
بہ زعم روزہ ابنائے وطن کو کاٹ کھاتے ہیں
جو مجھ ایسے ہیں رند ان کو بھی زعم پارسائی ہے
اور اس مضمون کی اک دعوت افطار آئی ہے
کہ اک چالیس سالہ طفل کی روزہ کشائی ہے
فرشتے اس پہ حیراں دم بخود ساری خدائی ہے
خداوند دوعالم سے وہ یہ بیوپار کرتے ہیں
جو رکھا ہی نہیں روزہ اسے افطار کرتے ہیں
میاں بیوی چلے بازار کو بہر خریداری
مٹھائی پھل سویاں عطر جوتے گوشت ترکاری
جو شے بیوی نے لی وہ دوش پر شوہر کے دے ماری
وہ بے چارہ تو خچر ہے برائے بار برداری
بزور قرض دوکانوں پہ اتنا فضل باری ہے
کہ اس گھمسان میں انسان پر انسان طاری ہے
لیا بیوی نے شوہر کے لئے جوتا جو ارزاں ہے
وہ امریکی مدد کی طرح اس کے سر پہ احساں ہے
کہ اس سے فائدہ پہنچے گا اس کو جس کی دوکاں ہے
اور اس شوہر کا جوتا خود اسی کے سر پہ رقصاں ہے
یہ صورت دیکھ کر کہتے ہیں اکثر دل میں بن بیاہے
''دل و دیں نقد لا ساقی سے گر سودا کیا چاہے''
جو سلنے کو دیئے کپڑے وہ ہیں سب حبس بیجا میں
کہ درزی چھپ گیا جب اطلس و کمخواب و دیبا میں
تو ریڈی میڈ کپڑوں کی دکانیں جھانکتا تھا میں
فلک پر قیمتیں لٹکی ہوئی تھیں شاخ طوبیٰ میں
مبارک ماہ کے اندر ہمیں سے نفع خوری ہے
نہیں ہوتا ہے باطل جس سے روزہ یہ وہ چوری ہے
یہ سویاں جو بل کھاتی ہوئی معدے میں جائیں گی
سیاسی گتھیوں کو اور الجھانا سکھائیں گی
ہماری آنے والی نسل کے لیڈر بنائیں گی
جو لیڈر بن چکے ہیں ایبڈو ان کو کرائیں گی
''قد و گیسو میں قیس و کوہ کن کی آزمائش ہے
جہاں ہم ہیں وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے''
مہینے بھر کے روزوں بعد حق نے دن یہ دکھلایا
علی الاعلان کھایا دوستوں کے ساتھ جو پایا
یہ پہلے ڈر تھا ہم کو جھانک کر دیکھے نہ ہمسایہ
بجز خوف خدا دن میں بظاہر کچھ نہ تھا کھایا
حسینوں مہ وشوں کو اب سر بازار دیکھیں گے
گئے وہ دن کہ کہتے تھے پس از افطار دیکھیں گے