عید کی اچکن

سجتی تھی کبھی تن پہ جو تھی عید کی اچکن
سجتے تھے کبھی ہم، تو کبھی عید کی اچکن
سو سو طرح پروان چڑھی عید کی اچکن
اب اتنے گھٹے ہم کہ بڑھی عید کی اچکن
اچکن نہیں اس وقت عبا اور قبا ہے
یا کوئی دوشالہ ہے جو کھونٹی پہ ٹنگا ہے
اس عید کی اچکن نے مچائی تھی بڑی دھوم
جب اس کو پہنتے تو چمک اٹھتا تھا مقسوم
جاتے جو کہیں دور سے ہو جاتا تھا معلوم
ہم اس میں نظر آتے تھے جیسے کہ ہوں معصوم
اس عید کی اچکن میں بڑے لعل جڑے تھے
عیدی بھی ہمیں دیتے تھے جو ہم سے بڑے تھے
اس عہد میں یہ عید کی اچکن تھی بنائی
جس عہد میں ہم کھاتے تھے بابا کی کمائی
دیتے نہ تھے افلاس کی اس وقت دہائی
مل جاتی تھی جس شے کی ضرورت نظر آئی
ہر بات پہ جب روٹھ کے ہنسنے کا مزہ تھا
تب عید کی اچکن کے پہننے کا مزہ تھا
اس عید کی اچکن کو پہن لیتے تھے جب ہم
آتی تھی نظر ہیچ ہمیں سلطنت جم
جس نے مجھے دیکھا وہ یہی کہتا تھا ہر دم
''جب تک کہ نہ دیکھا تھا قد یار کا عالم''
''میں معتقد فتنۂ محشر نہ ہوا تھا''
میں بھی غم دنیا کا شناور نہ ہوا تھا
اس عید کی اچکن نے گلے ان سے ملایا
گھبراتا تھا پاس آنے سے جن لوگوں کا سایہ
کس کس کے نہ جانے بت پندار کو ڈھایا
جب عید کا دن آیا تو پھر دل کو سجایا
اچکن نہیں ماضی کا سنہرا سا ورق ہے
ہم بدلے پر اچکن نہیں بدلی یہ قلق ہے
اے جعفریؔ اچکن کو نہ لٹکا مرے آگے
''جز وہم نہیں ہستیٔ اشیا مرے آگے''
وہ دھوپ ڈھلی رہ گیا سایا مرے آگے
اب قصۂ ماضی کو نہ دہرا مرے آگے
کام آئی یہ اچکن نہ غریب الوطنی میں
''ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں''