ہم تو چلے سسرال: آستانہ سُسرالیہ پر حاضری کا دن
آج عید کا دوسرا دن ہے اور اس کو " سسرال ڈے " کہا جاتا ہے کیوں کہ آج ملک کے مختلف شہروں سے شادی شدہ جوڑے موٹرسائیکل پر بیوی بچے، گوشت کا شاپر، چھوٹے بچے کے پیمپر ، دودھ کا فیڈر لیے سسرال کی جانب رواں دواں ہیں۔۔۔۔
عید الاضحیٰ کے پہلے روز قربانی، گوشت بنانے، کھانے اور بانٹنے میں گزر گیا۔عید کا دن خدا کے خاص فضل اور عنایت کا دن ہوتا ہے۔۔۔اس دن خدا ہر کسی کے دل میں الفت, محبت,مسرت اور انبساط کے بیج بو دیتا ہے۔۔۔ہر طرف ہنستے مسکراتے چہرے اور بھاگتے دوڑتے, کھیلتے بچوں کا منظر دل کو باغ باغ کردیتا ہے۔ عید کے دوسرے دن اکثر گھروں میں سسرال جانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔۔۔
عیدالفطر کا پہلا دن میٹھے پکوان اور عید الاضحیٰ کا پہلا دن گوشت بنانے، بانٹنے اور کھانے میں گزرتا ہے۔ سارا دن مختلف قسم کے پکوان اور مشروبات سے اہل خانہ اور مہمانوں کو تواضع کی جاتی ہے۔ عید کے دنوں میں کم بخت نیند بھی اپنی کسر نکالتی ہے اور بندے کے کَس بل نکال دیتی ہے۔ عید کا دوسرا دن ہے اور ہم خوابِ خرگوش میں حسین وادیوں کی سیر فرمارہے تھے کہ ملکہ عالیہ کی رس گھولتی آواز نے بستر سے اٹھنے پر مجبور کردیا۔بادشاہ سلامت کو حکم صادر ہوا کہ آج عید کا دوسرا دن ہے۔۔۔بستر کی جان چھوڑیے, اپنی جان اور اس جان کے ٹکڑوں کو سسرال شریف حاضری کے لیے کمر باندھیے۔۔۔ارے! آج تو قومی سطح پر یومِ سسرال منایا جارہاہے۔مرتے کیا نہ کرتے, خیر ہم اپنے حواس باختگی سے باہر آئے اور حقیقیت کی دنیا کو کھلی آنکھ سے دیکھنے پر آمادہ ہوئے۔ہم کچھ دیر کی مشقت ناتمام بعد بیگم سمیت بچوں کو کندھوں پر لادے سسرال کی جانب خراماں خراماں چل پڑے۔
اس حکم بجا آوری میں محض یہ فقیر پُر تقصیر ہی "شریکِ جرم" نہ تھا بلکہ "کوئے جا ناں" کی طرف کوئی موٹرسائیکل پر,تو کوئی گاڑی میں اور تو اور رکشے,تانگے, چنگچی سمیت ہر طرف داماد صاحب کو بیوی بچوں سمیت یوم سسرال منانے کے لئے سفر کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
کنوارے حضرات اور وہ شادی شدہ جنھیں "استثنیٰ" حاصل ہوتا ہے وہ ٹھنڈے مقامات پر سیر کے لیے نکل پڑتے ہیں جبکہ باقی شادی "شودے" ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے عازمِ سسرال چل پڑتے ہیں۔
یہ سسرال بھی عجب مقامِ "عبرت" ہے۔۔۔
ایک بار ہم نے اپنے ایک شادی شدہ دوست کو معمول سے ہٹ کر "آسودہ حال" اور خوشی سے نہال دیکھا۔۔۔وجہ پوچھی, تو فرماتے ہیں کہ موصوف کی اہلیہ مع عیال "عالمِ برزخ" گئی ہوئی ہیں۔ ہم نے حیرت سے پوچھا کیا فرمارہے ہیں ۔۔۔عالمِ برزخ یعنی کہیں دنیا تو۔۔۔۔!
ارے نہیں! عالمِ برزخ یعنی میرے سسرال۔۔۔یعنی کہ اپنے میکے گئی ہوئی ہیں۔
جناب! سسرال کیسے عالمِ برزخ ہوا؟ ہمارے استفسار پر فرماتے ہیں کہ وہ نہ ہمارے پاس ہیں نہ خدا کے پاس
نہ اِدھر کے نہ اُدھر کے۔۔۔
یہ بھی پڑھیے : شوہروں کو زیست ہے بارِ گراں سسرال میں (مزاحیہ نظم)
جی ذکر ہورہا تھا کہ اہلیہ کے عالمِ برزخ یعنی سسرال جانے کا۔ اب ذرا ذکرِ خیر ساس جی کا ہوجائے۔عموماً داماد اپنی ساس کو "خوش دامن" کہتے ہیں۔جناب احمد حاطب صدیقی(ابو نثر) ساس کے خوش دامن کہنے پر فرماتے ہیں:
"خبر نہیں(ساس کے لیے) ’خوش دامن‘ کی ترکیب کس خوش فہم نے ایجاد کی؟کون جانے خوشی کس کے حصے میں آتی ہے اور دامن کس کا تار تار ہوتا ہے؟
مگر اپنے اطہر شاہ خان جیدیؔ مرحوم تو لوگوں کو نیکی کی تلقین یوں فرمایا کرتے تھے:
نیکی ہی کام آتی ہے
دنیا ہے دو دن کا مال
ساس کسی کی ہو جیدیؔ
نیکی کر دریا میں ڈال
البتہ ہمارے ایک سادہ لوح دوست اُردو کی ایک معروف کہاوت میں محض ایک حرف کا تصرف کرکے یہ کہتے ہیں کہ ’’جب تک ساس ہے، تب تک آس ہے۔"
مزید فرماتے ہیں کہ داماد کی اصل قدردان تو ساس ہی ہوتی ہے ان کے بقول:
"اُردو کی ایک اور کہاوت ہے کہ ’’داماد تو ڈائن کو بھی پیارا ہوتا ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ ساس خواہ بہو کے لیے کتنی ہی ڈائن کیوں نہ ثابت ہو، مگر داماد کو خوش رکھنے کے لیے تن، من، دھن اور دامن ہمیشہ کشادہ رکھتی ہے۔غالباً یہی عقیدہ حضرتِ بیدلؔ جونپوری مرحوم کا بھی رہا ہوگا۔ بیدلؔ صاحب بڑے ’دلدار‘ شاعر تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے، ذرا اُن کے اِن اشعار کی بے ساختگی اور بالخصوص دوسرے شعر میں زبان و بیان کے کمالات ملاحظہ فرمائیے:
دوستو! دنیا ہے فانی، اطلاعاً عرض ہے
چار دن ہے نوجوانی، اطلاعاً عرض ہے
اِس جہاں میں جن بتوں کو ہم نے اپنا دل دیا
ہو گئے سب آں جہانی، اطلاعاً عرض ہے
اسی غزل میں وہ اپنی ساس کو ایک ’سانحۂ ارتحال‘ کی اطلاع پہنچاتے پہنچاتے یہ آس بھی لگا بیٹھے کہ
دوسری لڑکی مجھے دے، پہلے والی چل بسی
اے مرے بچوں کی نانی، اطلاعاً عرض ہے"
صدیقی صاحب کی ہر بات سے اتفاق لیکن زوجہ اول کی صحت و عافیت اور نکاحِ ثانی کے لیے دعاگو رہتے ہیں کہ خدا ہماری زوجہ اول کا سایہ ہم پر قائم دائم رکھے اور ایسی ایک مزید زوجہ کو ہمارے حلقہ ء ارادت میں جگہ دے۔(لیکن اس دعا کو بالجہر مانگنے کے بھی قائل نہیں کہ بیوی اور بیوی کے بھائیوں سے ڈرلگتا ہے۔) عرب میں یک زوجیہ ہونا باعثِ شرمندگی سمجھا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں ہندو تہذیب کے زیرِ اثر رہنے کی وجہ سے اکثر مرد یک زوجیے رہنے پر اکتفا کرتے ہیں۔اس موقع پر مشتاق یوسفی کی بات پر ایمان لانے کو یقین کرتا ہے کہ ایسے شادی "شودے" دوسروں کا ذبیحہ کھانے کی وجہ سے یک زوجیے رہتے ہیں۔۔۔یوسفی فرماتے ہیں:
"دوسرے کا ذبح کیا ہوا گوشت کھانے سے آدمی بزدلا، یک زوجیہ اور چرب زبان ہو جاتا ہے۔"
اس اعتبار سے امید ہے کہ جنھوں نے عید الاضحیٰ کے موقع پر اپنے ہاتھوں سے قربانی کا جانور ذبح کیا ہے وہ کم از کم 'یک زوجیہ' نہیں رہے گا۔ لیکن بزدلی اور چرب زبانی سے آزادی شایَد ہی مل سکے۔
البتہ ہم ان نامراد شوہروں میں سے ہرگز نہیں جو دوسری شادی کے بعد پہلی زوجہ محترمہ کو نظرانداز کردیتے ہیں۔
خیر سے ہم ذکر کررہے تھے عید کے دوسرے دن سسرال جانے کا۔عید کے دوسرے دن اور شادی کے پہلے دن میں ایک بات مشترک ہے کہ قوت برابر لگتی ہے لیکن مخالف سمت میں۔۔۔
غالب کی روح سے معذرت کے ساتھ؛
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
"گھر" مرے پیچھے ہے "سسرال" مرے آگے
بھائیوں کی نسبت میرا سسرال ذرا دور ہے۔۔۔اس لیے جب بھی سسرال جانا ہوتا ہے تو خوب تیاری کے ساتھ جانا ہوتا ہے۔۔۔میرے قریبی رشتے دار "رشک" کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ سسرے کو سسرال جاکر کیا لت لگ جاتی ہے کہ آنے کا نام نہیں لیتا۔
بیٹی کے بیاہ کے وقت بزرگوں کو یہ کہتے سنا کہ ’’جا بیٹی! اب تیرا جنازہ سسرال سے ہی اٹھے‘‘ جبکہ یہ دعا یا بددعا کبھی لڑکے یعنی شوہر کو نہیں دی جاتی ہے کہ جا بیٹا! اب تیرا جنازہ سسرال سے نکلے۔خیر بیٹی تو آباد رہتی ہے لیکن ایسے بزرگ دنیا سدھار جاتے ہیں۔ایسی جاہلانہ باتوں سے اب باز آجانا چاہیے۔
ایسی "دعا" سے گزر, ایسے "بزرگ" سے گزر
اجازت چاہتے ہیں کہ چلتے ہفتے ہم بھی مع اہلیہ و عیال سسرال پہنچ چکے ہیں۔
سب شادی شودوں کو قومی یومِ سسرال مبارک ہو!
یہ بھی پڑھیے :داستان عشق میں نے جب کہی سسرال میں
کسی ستم ظریف نے 2020ء میں سوشل میڈیا پر 'یوم سسرال ڈے' پر حکومت سندھ کی طرف سے سرکاری چھٹی کا جعلی نوٹیفیکیشن جاری ہی کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی سوشل میڈیا صارفین اسےسچ سمجھ بیٹھے اور کئی لوگ اس بارے میں ایک دوسرے سے اس بارے استفسار بھی کرتے دکھائی دیے۔
ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ سسرال کو یاد کرکے گزارا کیا جاتا ہے۔۔۔ایک ایسے بزرگ کی نمائندگی کرتے ہوئے نعمان انصاری صاحب فرماتے ہیں:
ہم ہوگئےتوسترکے
سسرال گیااب اگلےجہاں
اب ڈھونڈیں سسرال کہاں
سالیوں کواورسالوں کو
بس میں نےکچھ فون کیے
گھرہی اپنےلیٹےرہے
چوچلےہیں یہ جوانوں کے
جوکہ کبھی تھےپورےکئے
رب نےچھڑائے جھنجھٹ یہ
کتنے بڑےاحساں یہ کیے
ہم رب کے ہیں ممنون احساں
تمام شادی 'شودوں' کو تہہ دل سے ،آستانہ عالیہ سسرالیہ' پر بصد عجز و شوق حاضری دینے پر سلام پیش کرتے ہیں۔