احساس کی رات

مجھے ڈر ہے کہ کہیں سرد نہ ہو جائے یہ احساس کی رات
نرغے طوفان حوادث کے ہوس کی یلغار
یہ دھماکے یہ بگولے سر راہ
جسم کا جان کا پیمان وفا کیا ہوگا
تیرا کیا ہوگا مرے تار نفس
تیرا کیا ہوگا اے مضراب جنوں
یہ دہکتے ہوئے رخسار
یہ مہکتے ہوئے لب
یہ دھڑکتا ہوا دل
شفق زیست کی پیشانی کا رنگیں قشقہ
کیا ہوگا
اڑ نہ جائے کہیں یہ رنگ جبیں
مٹ نہ جائے کہیں یہ نقش وفا
چپ نہ ہو جائے یہ بجتا ہوا ساز
شمعیں اب کون جلائے گا سر شام گزر گاہوں میں
دہر میں لطف و عطا کچھ بھی نہیں
دہر میں مہر و وفا کچھ بھی نہیں
سجدہ کچھ بھی نہیں نقش پا کچھ بھی نہیں
میرے دل اور دھڑک
شاخ گل
اور مہک اور مہک اور مہک