اہمال کی منطق

شاعری میں تخلیقی عمل کے حسی اور اظہار ی وسائل کی معنویت اور بے معنویت کا سوال کسی مخصوص دور یا رجحان سے وابستہ کرنا غلط ہے۔ اس مسئلے کا تعلق تخلیقی عمل کے بنیادی سوالات سے ہے۔ چنانچہ تخلیقی عمل کے مظاہر میں ابہام، اشکال اور اہمال کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ خود فنون لطیفہ کی۔ یہاں وضاحت کی سہولت کے لیے میں شاعری کو دو خانوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ ایک وہ جس کا ردعمل فوری ہوتا ہے اور جسے سمجھنے میں یا جس کی بنیاد پر معنی کی کسی نئی دنیا کے انکشاف میں اسے دیر نہیں لگتی۔ دوسری وہ جسے قاری زینہ بہ زینہ حل کرتا ہے، جس کی ترسیل خط مستقیم کے بجائے خط منحنی اور پیچیدہ لکیروں پر ہوتی ہے، جو اول الذکر کی طرح قاری کو ذہن میں بجلی کے ایک کوندے کی لپک کا تجربہ نہیں بخشتی بلکہ ایک ایسی آزمائش کا حکم رکھتی ہے جسے عبور کرنے کے لیے اسے جانے ان جانے کئی راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس ضمن میں وہ شاعری بھی آجاتی ہے جو بہ ظاہر تمام عقلی اور جذباتی کوششوں اور قوتوں کو بروئے کار لانے کے باوجود اس کے لیے معمہ بنی رہتی ہے۔یہ حقیقت شاید کچھ لوگوں کے لیے قابل قبول نہ ہو، لیکن اس سے انکار کا کوئی قطعی جواز نہ ہوگا کہ جو شاعری بہ راہ راست ہمیں متاثر کرتی ہے یا ہمارے حواس اور فکر سے کوئی رابطہ پیدا کرتی ہے، اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم اپنے مطالعے، کسی مخصوص روایت کے اثرات، ذہنی تربیت اور معاشرتی میلانات سے متعین ہونے والی نفسیات کے باعث اپنے ذہن میں ہر وقت کچھ ایسے مخصوص سانچے رکھتے ہیں جن میں سمجھ میں آنے والی شاعری بہ آسانی سموئی جا سکتی ہے۔ اس کی مثال شارٹ ہینڈ کے اشارات Codes سے دی جا سکتی ہے، جن سے واقفیت کے باعث ایک شخص بہ ظاہر بے معنی خطوط میں معانی کو جلوہ گر دیکھتا ہے۔ عام قاری کے ذہن میں یہ اشارات شاعری کی رسمی زبان، برس ہا برس کے دہرائے ہوئے اشاروں، علامات اور اصطلاحات، محاوروں کی طرح روایت کا جزو بن جانے والے تلازمات سے متعین ہوتے ہیں۔ انہیں ایک طرح کی ذہنی تلمیحات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جو اپنا اثر اور مفہوم اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور عام شعرا کے یہاں ان کی باطنی فضا اور بیرونی رشتے کم وبیش یکساں ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ شاعری جسے انفرادی آواز اور شخصیت سے عاری کہنا مناسب ہوگا اور جس کی فکری، حسی، لسانی اور اظہاری حدبندیاں عام اور مقبول رجحانات کی ساختہ ہوتی ہیں، ایک عام قاری کے لیے شارٹ ہینڈ کے اشارات سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ افریقہ کے غیر مہذب اور وحشی قبائل کے لئے سائنس اور منطق کی دو ٹوک باتیں ناقابل فہم ہوں گی لیکن جادو اور ٹونے یا توہمات سے وابستہ رسوم کی منطق بہ آسانی ان کی سمجھ میں آ جائےگی، کیوں کہ ایسی باتیں ان کے بنیادی اعتقادات کا ایسا ناگزیر جزو بن جائیں گی جن کی حیثیت ان کے نزدیک آر کی ٹائپل ہوگی۔یہی صورت حال فکری اور نظریاتی ہم آہنگی کی لذت فراہم کرنے والی شاعری کے سلسلے میں بھی پیش آتی ہے۔ یہ شاعری اپنے نظریاتی دائرے میں آنے والے قاری کے لیے کم وبیش ہر شرط سے مستثنیٰ ہوتی ہے۔ وہ اسے اپنی، اپنے آئیڈیل کی یا اپنے محبوب تصورات کی دستاویز سمجھ کر پڑھتا ہے اور انہیں تصورات کی زیارت اس کا نصب العین ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ تخلیقی عمل کی اساسی رمزیت یا اس کے اظہاری وسائل کو غیر ضروری یا بے معنی سمجھتا ہے اور اگر اس کے مطبوع تصورات بھی شعری تجربہ بننے کے عمل میں اپنا حجم اور ہیئت تبدیل کرکے بالواسطہ طور پر یا قدرے مبہم انداز میں اس تک پہنچتے ہیں تو انہیں اپنانے میں جھجک اور دشواری محسوس کرتا ہے۔مثال کے طور پر سردار جعفری کی ’’ترقی پسندادب‘‘ میں فیض کا حال دیکھ لیجئے۔ یہاں اس واقعے کا ذکر بھی مناسب ہوگا کہ اشتراکی نظریہ اور سماجی حقیقت نگاری کے اظہر من الشمس ترجمان گور کی زبان سے ایک موقعے پر سچے ادب کی پرکھ کے بنیادی اصول کی بات بھی نکل گئی۔ اس نے کہا کہ ایک مخصوص نظریے سے وابستہ ادب کا وہ حصہ یا وہ حسن جو اس نظریہ سے مکمل اختلاف رکھنے والے کو بھی متاثر کرنے کی قوت رکھتا ہے، سچا ادب ہے۔ یعنی۔۔۔ ماورائے سخن بھی ہے ایک بات۔ اس بات کو پانا اور سمجھنا ذہنی کشادگی اور وسیع القلبی کے بغیر دشوار ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شعر کا قاری اگر کسی بندھے ٹکے نظریے کا پابند ہے تو بیشتر صورتوں میں اس نظریے کے تعصبات سے آزاد ہوکر شاعری کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔فراق صاحب اعلا ادب کی تحقیق اور پرکھ کا جیسا سلیقہ رکھتے ہیں، بازار ادب میں اس کی حیثیت جنس کمیاب کی ہے۔ لیکن اقبال کو سمجھنے میں ان سے ہمیشہ غلطی ہو جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی مکمل ذمہ داری اقبال کے سر نہیں ڈالی جا سکتی۔ اس کے برعکس سرور صاحب مخدوم کی اس نظم کو بھی جس کا موضوع ’’مقہورومعتوب‘‘ استالین کی ذات ہے، سراہتے ہیں اور مخدوم کی شاعری کے بعض محاسن کی تعریف کرتے ہیں۔ ادب اور تفہیم ادب انہیں محاسن کی دریافت کا عمل ہے۔اعلا شاعری صرف فکر یا صرف خیال یا صرف تاثر یا صرف نظریہ نہیں ہوتی۔ وہ ہمیشہ کثیرالابعاد ہوتی ہے۔ یہ ابعاد وایلس فاولی کے لفظوں میں ’’اظہار اور معنی کے باہمی عقد‘‘ سے وجود میں آتے ہیں۔ اعلا شاعری متعین فکر اور منصوبہ بند نظریے کو اگر قبول کرتی ہے تو اس طرح کہ انہیں عقیدہ بنا دے۔ یہی وسیلہ ہوتا ہے ایک خارجی تصور کو خون میں جذب کرنے، بیرونی شرط کو وجود کی آواز میں ڈھالنے اور تخلیقی عمل کو ہلاکت خیز قطعیت اور بے نمک استدلال سے بچانے کا۔ سہل ممتنع تک کے بارے میں غالب کی یہ توجیہ بہت اہم ہے کہ سامنے کی بات قاری کے لیے ایک ایسا تجربہ بن جائے جو آسان اور عام فہم ہونے کے باوجود اس کے لیے ایک انکشاف ہو۔ انوکھے پن کا احساس اور ردعمل اس وقت پیدا ہوسکتا ہے جب زندگی کی سادہ ترین حقیقتیں، روز مرہ زندگی میں کام آنے والی معمولی اشیا بھی کسی نئے زاویہ یا نئے بُعد کی نشاندہی کریں اور اس طرح ایک نئی حقیقت کا تجربہ بن جائیں۔ یہی زاویہ سادہ کو پرکار، آسان کو مشکل، معمولی کو غیرمعمولی اور متوقع کو غیر متوقع بناتا ہے اور صراحت کو رمزیت سے ہم کنار کرتا ہے۔اس مضمون کا مقصد کسی مخصوص دور یا رجحان کی حمایت یا وکالت نہیں۔ اس کا مقصد کسی مخصوص مکتب فکر یا نظریے کی تردید بھی نہیں۔ یہاں ان مسائل اور سوالات سے بحث کی گئی ہے جو تخلیقی عمل کے اساسی پہلوؤں سے وابستہ ہیں۔ جیسا کہ شروع میں واضح کر دیا گیا ہے، ان سوالات کی تاریخ فن کی تاریخ سے کم عمر نہیں اور اس کے ساتھ سایے کی طرح لگی رہی ہے۔ اس مضمون کا بنیادی مقصد ایک مسئلے کی وضاحت ہے جسے ہماری شعری روایت ابہام کے نام سے جانتی ہے اور جذباتی تشدد کی بنا پر جسے بعض حضرات اہمال قرار دیتے ہیں۔ اسی ضمن شعر کی تخلیق اور تفہیم کے بنیادی عمل کے باہمی ٹکر اؤ اور اختلافات کے باعث رونما ہونے والی پیچیدگیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔شعری اظہار کی ہر شکل کسی تجربے یا تاثر کی شعوری تشکیل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ تفہیم وتجزیے کے عمل میں بھی ہم دانستہ یا نادانستہ طور پر ہمیشہ ایک میکانکی اور منضبط طریق کار اختیار کرتے ہیں۔ اشکال، ابہام اور اہمال کا مسئلہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ شاعر، قاری سے الگ ایک خود مختار عضوی اکائی ہے اور ایک آزاد بیرونی حقیقت۔ اردو کی شعری روایت میں جب تک شاعری کے اسکولوں، مکاتب فکر اور شاگردی واستادی کے سکے رائج رہے، اظہار وافہام کا عمل بھی معینہ لکیروں پر جاری رہا۔ اس میں غیر متوقع کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ ہر شاعر اپنے اسکول، مکتب فکر یا استاد سے پہچانا جاتا تھا اور اس کے شعری مشغلے کے شناختی نشانات متعین تھے۔ پیچیدگی کا سوال غیر رسمی اور انفرادی خطوط پر کی جانے والی شاعری سے وابستہ ہے۔ لیکن مشکل پسندی کی اصطلاح بے معنی ہے کیوں کہ اعلا تخلیقی استعداد رکھنے والا شاعر اپنے تجربے کے اظہار میں تسہیل کے ایک ایسے اصول کا پابند ہوتا ہے جس کا تعین خود اس کی صلاحیت کرتی ہے۔ وہ اپنے اظہار کی جو ہیئت منتخب کرےگا، وہی اس کے نزدیک اس کے تجربے سے سب سے زیادہ ہم آہنگ اور اس کی ترسیل کے لیے سہل ترین ہوگی۔ بعض صورتوں میں اور ایسا اکثر ہوتا ہے کہ اظہار کی وہ ہیئت قاری کے ذاتی میلان یا استعداد سے مطابقت نہیں رکھتی۔ چنانچہ ناقابل فہم بھی ہو سکتی ہے لیکن افہام و تفہیم کے عمل میں قاری اپنے وجود کو کم تر سمجھنے یا اپنی بصیرت کو ناکام دیکھنے پر چونکہ آمادہ نہیں ہوتا، اس لیے فہم سے بالاتر شاعری کی طرف اس کا رویہ حریفانہ ہوتا ہے۔ وہ اسے آزمائش یا امتحان کا پرچہ سمجھ کر اپنے علم و آگہی اور فہم و فراست کے اثبات کی خاطر حل کرنا ضروری سمجھتا ہے۔فن کی کسی بھی اظہاری ہیئت کی طرح شاعری کی مکمل تفہیم ممکن نہیں۔ ایک نظریے کے مطابق خود فنکار بھی اپنی تخلیق کے محرک اور اس کے نتیجہ کو سمجھنا ضروری نہیں سمجھتا۔ زیادہ سمجھ میں آنے والی اور آسان شاعری کو پڑھنا بھی بہ قول راشد شاید مشکل ہوگا۔ کولرج کا خیال ہے کہ شاعری کا تاثر اسی صورت میں زیادہ ابھرتا ہے، جب اسے پوری طرح نہ سمجھا گیا ہو، یعنی اس کی ترسیل کے تمام امکانات قاری کے نزدیک ختم نہیں ہو چکے ہوں اور فراسٹ کا قول ہے کہ شاعری پیچیدگی ہے۔ پیچیدگی کو پیچیدگی ہی رہنے دیجئے۔ پیچیدگی کو وضاحت اور صراحت میں بدلنے کی کوشش نہ کیجئے۔ یہ تمام باتیں بحث طلب ہیں اور ان کا تعلق شاعر اور قاری کے ذاتی میلان اور رویے سے ہے۔ لیکن جب آسودہ طبعی کے ایک مخصوص درجے تک بھی قاری اسے سمجھنے سے قاصر رہتا ہے تو غیر شعوری طور پر اسے شکست کے ایک تجربے کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ اسی تجربے کا نتیجہ جھنجھلاہٹ کے مہذب اظہار کی شکل میں مہملیت اور بے معنویت کا اظہار بن کر رونما ہوتا ہے۔ اس وقت قاری ایک نادانستہ ذہنی سازش کے طور پر اصل حقیقت کو اپنے جذباتی ردعمل سے خلط ملط کر دیتا ہے۔ شاعری کی حیثیت ثانوی ہو جاتی ہے اور مقابلہ شاعر سے شروع ہو جاتا ہے۔ قاری کے نزدیک شاعر اسی کی طرح ایک عضوی اکائی ہے جسے وہ اپنی و اقفیت یا اندازے کے مطابق اپنے ہی جیسا اور کبھی کبھی کم تر حیثیت رکھنے والا ذہن سمجھتا ہے۔ اظہار کی ہیئت کا عمل جو ترسیل کی ناکامی کے بعد نقائص سے معمور نظرآتا ہے، اس کی تمام تر ذمہ داری قاری شاعرکی کم فہمی، کج فہمی یا نافہمی کے سر ڈال دیتا ہے، جب کہ ہیئت کا ناقص ہونا بھی لازمی طور پر شاعر کے ذہنی نقص کی دلیل نہیں۔ نک سک سے درست ہیئت مترتب اور منضبط فکر یا جذباتی تجربے کا مؤثر بیان بھی ہو سکتی ہے لیکن ہیئت کی پیچیدگی فکری ژولیدگی کی ضمانت نہیں۔یہ بھی ہوتا ہے کہ شعر کی غلط قرأت کبھی کبھی معنی کے اصل جوہر کو بےنقاب نہیں ہونے دیتی۔ بالخصوص غزل کے اشعار میں الفاظ کے معانی بعض اوقات مصرع یا شعر کے آہنگ سے متعین ہوتے ہیں۔ بعض الفاظ کی حیثیت مرکزی اور کلیدی ہوتی ہے جن پر لہجہ کا مناسب دباؤ نہ ڈالا جائے تو معانی کے کچھ زاویے روپوش رہ جائیں گے۔ شاعری میں ایجاز ایک لازمہ ہے۔ ایسی صورت میں شعر بیانیہ ہے یا خطابیہ یا استفہامیہ، اس کی روح سے کلی مطابقت رکھنے والا لہجہ مدھم ہے یا بلند آہنگ، عین ممکن ہے کہ شاعر نے کسی اشارے یا لفظ سے اس سوال کے جواب کی نشان دہی کی ہو، مثلاً،(۱)کوئی ویرانی سی ویرانی ہےدشت کو دیکھ کے گھر یاد آیاغالب(۲)گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دو ابھی ساغر ومینا مرے آگےغالب(۳)رنگ شکستہ صبح بہار نظارہ ہےیہ وقت ہے شگفتن گل ہائے ناز کاغالب(۴)کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشقہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعدغالبپہلے شعر میں لہجہ خوف کا ہے یا حیرانی کا یا تاسف کا یا تمسخر کا، اسی طرح دوسرے شعر میں غصے کا اظہار ہے یا حسرت کا، تیسرے شعر کالہجہ بیانیہ ہے یا استفہامیہ اور چوتھے شعر کے لہجے میں چیلنج چھپا ہوا ہے یا آپ اپنے سے شکایت، ظاہر ہے کہ قطعی طور پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ ان اشعار کے لب ولہجے میں بیک وقت کئی امکانات سمٹ آئے ہیں۔ اب اور شعر دیکھئے،تو کون ہے کیا ہے نام تیراکیا سچ ہے کہ تیرے ہو گئے ہمناصر کاظمیپہلے مصرعے کے لفظ ’’تو‘‘ پر لہجے کا دباؤ ڈال کر دوسرے مصرعے کو زیرلب تبسم کے ساتھ پڑھا جائے تو اس شعر کے دھیمے اور سرگوشی کے لہجے میں ابھرنے والے مفہوم کی پیروڈی بن جائےگی۔موت کا ایک دن معین ہےنیند کیوں رات بھر نہیں آتیغالباس شعر میں دن اور رات میں رونما ہونے والے صنعت اور تضاد سے متاثر ہوکر شرح لکھتے وقت دن اور رات کے الفاظ پر لہجے کا اتنا زور صرف کیا کہ شعر میں ایک نیا نکتہ پیدا ہو گیا۔ یعنی موت تو دن میں صبح اور شام کے درمیان کسی وقت آئے گی پھر رات کا ڈر کیوں ہے؟ اردو کے ایک نامور محقق نے ایک وقیع علمی مجلس میں اس شعر،بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہوناآدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہوناغالبکو دو ٹوک انداز میں مہمل قرار دیا تھا۔ شاعری میں اہمال کا سوال اس لیے بھی فضول ہے کہ ہر حسی عمل ذہنی عمل ہے۔ انتہائی دھندلی اور بے نشان کیفیت بھی جو شعری تجربے کی حدتک حواس کی گرفت سے بہ ظاہر کتنی ہی آزاد ہو، اظہار کی منزل تک آتے آتے ایک شعوری عمل بن جاتی ہے۔ احساس یا تاثر کی رَوپر خواہ دست رس نہ ہو لیکن اظہار کے وقت ان قوتوں سے کام لینا پڑتا ہے جو ہر حال میں انسانی عمل اور زاویے کی پابند ہیں۔ اسی لیے وٹ گنسٹائن نے یہ تصور پیش کیا ہے کہ ’’ہر لفظ حقائق کی تصویر ہے۔‘‘ اور سرے سے بے معنی لفظ کی تخلیق انسانی استعداد سے باہر کی چیز ہے۔ خیال کی کوئی رو، تجربے کی کوئی پرچھائیں اور تاثر کی کوئی لہر ہر انسانی آواز کے بطن میں موجود ہوگی۔ برٹرینڈر سل اس سلسلے میں اور آگے نظر آتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ،’’اہم صوتی الفاظ کے علاوہ اور لفظ استعمال نہیں کرتے تو یقیناً اس کی وجہ ہماری سہل انگاری ہے۔ ایک زبان بہروں اور گونگوں کی بھی ہے۔ ایک آدمی کا کندھے جھٹکانا بھی ایک طرح کالفظ ہے۔ اگر معاشرہ اس پر متفق ہو جائے تو وہ جسمانی حرکت جو خارجی طور پر نظر آ سکے لفظ بن سکتی ہے۔ لیکن ان سب کے مقابلے میں زبان کے اظہار کو جو فوقیت حاصل ہے اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ صوتی الفاظ بڑی تیزی اور کم ازکم عضوی واعصابی کوشش سے ادا ہو جاتے ہیں اور اس کے مقابلے میں کوئی حرکت اس عمدگی سے یہ مقصد پورا نہیں کرتی۔‘‘ خیر، یہ بحث فروعی ہے۔ شاعری میں ہمارا واسطہ ابھی تک صوتی لفظوں سے ہی رہا ہے لیکن آگے بڑھنے سے پہلے صوتی الفاظ کے ایک معروف مسئلے پر بھی نظر ڈالتے چلیے۔ قرآن کے حروف مقطعات مثلاً سوہ الم، کہٰعص، طاہا، نون قاف، الر، (مثلاً الف لام ہے نون وغیرہ) جو انتیس صورتوں کی ابتدا میں آئے ہیں، ان کے معنی ومدعا کا تعین اب تک نہ ہو سکا۔ کسی نے انہیں قرآن مجید کے نام سے تعبیر کیا۔ (مجاہد، ابن حریج) کسی نے انہیں صورتوں کا نام قرار دیا (عبدالرحمٰن ابن زید بن اسلم) کسی نے انہیں اللہ تعالیٰ کے اسمائے اعظم سمجھا (شعبی) کسی کے نزدیک یہ قسمیں ہیں (ابن عباس) کسی کا خیال ہے کہ یہ الفاظ کے تخفف ہیں (سعد بن جبیر)، (مثلاً الم میں الف سے اللہ، لام سے جبرئیل، میم سے محمد یعنی اللہ تعالیٰ نے جبرئیل کے واسطے محمد پر نازل کیا۔ کسی نے ان میں خدا کی صفات ڈھونڈ نکالیں۔کسی نے ابجد کے قاعدے سے انہیں اشخاص وامم سے متعلق سنین قرار دیا۔ بعض مترجموں نے انہیں اسمائے رسول سمجھا۔ بعضوں کا خیال ہے کہ یہ دوسورتوں کے درمیان حد فاصل کا کام دیتے ہیں اور بعض کا خیال ہے کہ یہ حروف چند کلمات کی طرف اشارے ہیں۔ بعض اہل علم کے نزدیک حروف مقطعات اللہ اور رسول کے درمیان ’’راز‘‘ ہیں۔ ایک اور تو جیہ یہ ہے کہ عربی زبان چوں کہ عبرانی سے ماخوذ ہے، اس لیے عبرانی زبان کے عام قاعدے کے مطابق یہ حروف معانی اور اشیاء کی صورت پر دلیل ہیں مثلاً حرف نون مچھلی کے معنوں میں بولا جاتا ہے اور جو سورہ اس نام سے موسوم ہوئی اس میں حضرت یونسؑ کا ذکر صاحب الحوت (مچھلی والے) کے نام سے آیاہے، یا حرف ط کے معنی سانپ تھے اور قرآن میں سوہ طہ، جو ط سے شروع ہوتی ہے اس میں حضرت موسیٰ اور ان کی لٹھیا کے سانپ بن جانے کا واقعہ ہے۔ اسی طرح سورہ بقرہ میں جو الف سے شروع ہوتی ہے گائے کے ذبح کا قصہ ہے اور الف گائے کے سینگ یا سر سے مشابہہ لکھا جاتا تھا۔محمد حسین آزاد نے جو لفظ کا ایک دلچسپ تخیلی تصور رکھتے ہیں اور جن کے نزدیک لفظ انسان کے دل، انسان کی خواہش اور اس کی حرکت اعصابی کا مجموعی خلاصہ ہے اور جنہوں نے زبان عرب کے ابتدائی محققوں میں عباد بن سلیمان ضمیری کے حوالے سے اس مسئلے پر بھی بحث کی ہے کہ ’’الفاظ اپنے حروف، اعراب اورآوازوں کے ذریعے سے خود بخود معنی بتلاتے ہیں۔‘‘ سخن دان فارس میں حرف ب کی تشریح یوں کی ہے، ’’بیت کا مخفف ہے۔ ابتدا میں گھر بھی سیدھے سادے ہوتے تھے۔۔۔ ب کو غور سے دیکھو۔ عرب کے ریگستان میں، جنگل میں ایک دیوار کے دو کنارے مڑے ہوئے ہیں۔ وہ گھر ہے گھر والا دیوار کے آگے بیٹھا ہے۔ وہ نقطہ ہے۔‘‘ اس تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ کوئی بھی آواز مفہوم سے عاری نہیں ہوتی۔ اور ہر لفظ معنی سے کوئی رشتہ ضرور رکھتا ہے۔ قرآن پر اہل عرب نے کئی اعتراضات کیے جو قرآن میں نقل ہیں لیکن کوئی اعتراض حروف مقطعات پر نہیں، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اہل عرب کے لیے ان کا مفہوم واضح تھا، ورنہ اعتراض کا یہ پہلو نظر سے اوجھل نہ ہوتا۔ لیکن صدیوں کے مطالعے اور تجزیے کے باوجود مفسرین ابھی تک اس سلسلے میں کسی ایک نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔ ان حروف کا اپنے ماسبق اور اپنے مابعد سے کیا رشتہ ہے، اس کی کوئی قطعی وضاحت نہیں ہو سکی، پھر بھی یہ عقیدہ بہ دستور مستحکم ہے کہ یہ حروف معنی و مطلب سے بیگانہ نہیں۔اس پس منظر میں وٹ گنسٹائن کے نظریے کا ایک تاریخی جواز بھی موجود ہے کہ لفظ حقائق کی تصویر ہے۔ کسی نظم کا مفہوم اس کے الفاظ کا ہی پابند ہوتا ہے لیکن یہ بات بھی ذہن نشیں کر لینی چاہئے کہ شاعری میں جو الفاظ مفہوم کا تعین کرتے ہیں وہ اکثر فنی مفہوم کے پابند نہیں ہوتے۔ لغوی زبان کو پیمانہ قرار دینے سے اشعار کی تشریح میں ایسے لطائف سرزد ہونے کا امکان ہے جن کی وافر مثالیں غزلیہ شاعری پر ڈاکٹر عندلیب شادانی کی کتاب میں ملتی ہیں۔ ڈاکٹر جانسن نے جب یہ کہا تھا کہ شاعری ہی زبان کا تحفظ کرتی ہے تو ان کا مطلب یہی تھا کہ الفاظ اپنے تمام امکانات اور ابعاد کے ساتھ اپنے تخلیقی استعمال کے بعد ہی نمایاں ہوتے ہیں اور شعری اظہار انہیں معنوی وسعت کی ایسی فضاؤں سے روشناس کراتا ہے جو نثر کے احاطۂ اختیار سے باہر ہے۔چنانچہ نثری اصناف کے تراجم اصل مفہوم کی ترسیل جس طرح کرتے ہیں، شعری تراجم نہیں کرسکتے کیوں کہ شاعری میں لفظ کا آہنگ ایک ناگزیر جزو ہوتا ہے۔ غیر معمولی شاعری میں لفظ عام شعری روایت کا حصہ ہونے کے باوجود پہلی بار استعمال کیے جانے کا حسن رکھتا ہے۔ سوئن برن کی نظموں کا حوالہ دیتے ہوئے ایلیٹ کی یہ رائے قابل غور ہے کہ ان میں مفہوم آہنگ سے الگ کوئی چیز نہیں۔ اگر آپ ان کے ٹکڑے الگ کر دیں تو دیکھیں گے کہ ان میں کوئی خیال نہیں۔ صرف الفاظ ہیں۔ بعض نقادوں (مثلاً رچرڈس، بلیک مور) کا خیال ہے کہ شاعری کا مفہوم یا لفظوں کا تاثر ان کے آہنگ سے کسی بھی صورت الگ نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف ایٹس (YEATS) کہتا ہے کہ تمام آوازیں، تمام رنگ اور تمام ہیئتیں مل کر بھی احساس کی غیر محدود وسعتوں کے اظہار سے قاصر رہتی ہیں۔ وجہ یہ بتائی ہے کہ شاعری، مصوری اور موسیقی میں لفظی، صوتی یا بصری اظہار کی مختلف النوع صورتیں ایک کلی حقیقت بن جاتی ہیں اور ان کی تعبیر میں کام آنے والے جزوی عناصر اپنی انفرادیت کھو دیتے ہیں۔ شاعری ایک اساسی تجربے کی بنیاد پر دوراز کار حقیقوں کے لازمے سے وجود میں آتی ہے۔ اسی بات کو ’’ابہام کی سات اقسام‘‘ کے مصنف (ولیم ایمسن) نے یوں کہا ہے کہ اعلا شاعری کا انحصار ہمیشہ غیر متوقع تلازموں پر ہوتا ہے۔ یہ تلازمے بظاہر پریشان خیالی کے مظہر دکھائی دیتے ہیں لیکن شاعر ایک وسیع الاختیار اکائی کی حیثیت سے اظہار کی بکھری ہوئی شکلوں اور منتشر پیکروں کو کنٹرول کرتا ہے۔ اسباب، علل اور معلول کے باہمی تعلق میں نئے پہلوؤں کی دریافت یا دو اجنبی، نامانوس اور باہم متصادم اشیا میں کسی نئے رشتے کی بنیاد پر ایک نئے تلازمے کا انکشاف بہت پرانی روایت ہے۔ اسے کسی مغربی بدعت سے تعبیر کرنا یا فرانسیسی ابہام پسندوں سے منسلک کرنا نا واقفیت کی دلیل ہے۔ اے۔ ایچ کریپے نے (اپنی کتاب اساطیر کا آغاز، میں) اساطیر کو شاعروں کی تخلیق کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ اس کے نزدیک یہ خالص جمالیاتی پیداوار ہیں جنہیں لوگ اس وقت تک تسلیم نہیں کرتے جب تک ہ مذہبی صحائف میں ان کی جگہ مخصوص نہ ہو جائے۔ سوزان لینگر نے اسطور کے تعمیری مواد کو خواب کی معلوم ومانوس علامتیت کا پروردہ کہا ہے۔ یعنی تمثال اور سراب خیالی اس کی تشکیل کرتے ہیں۔ اسطور کی بنیاد غیر استدلالی علامتیت ہے۔ اسطور کی بنیاد غیر استدلالی علامتیت ہے۔ یہی غیراستدلالی علامتیت خواب اور شاعری کا مزاج بھی ہے۔ اسی لیے ایک امریکی مصنف رچرڈ چیز (RICHARD CHASE) نے THE QUST OF MYTH میں ایک باقاعدہ نظریہ پیش کیا ہے، جس کی رو سے شاعری اسطو ر ہی کی ایک قسم ہے۔ کسی بھی نثری منطق سے غیراستدلالی علامتیت کی بنیاد پر رونما ہونے والے تخیلی پیکروں کا اثبات ممکن نہیں، بشرطیکہ قاری کا ذہن انہیں دوبارہ خلق کرنے پر قادر نہ ہو۔ ڈی، جی جیمز نے یہ بتاتے ہوئے کہ تخیل کی قوتیں انسان کی مرضی کی پابند نہیں، کہا ہے کہ ’’یہ قوتیں چشمے ہیں، انجن نہیں۔‘‘ اسی لیے شاعری، اساطیر اور خواب کی کیفیتوں یا باطنی انکشافات پر بیرونی احتسابات کی گرفت غیر عقلی ہے۔ شاعری، اساطیر اورخواب سے آگے بڑھ کر ایک زیادہ واضح اور ٹھوس مثال دیکھیے۔ غیراستدلالی علامتیت کا یہ رویہ ہندوستان میں چودہویں اور پندرہویں صدی کے متصوفانہ رسائل میں بھی بہت نمایاں ہے۔ یہ رسائل رشدوہدایت اور تدریس وتلقین کا وسیلہ تھے۔ چنانچہ ان کا عمل صاف طور پر دوطرفہ تھا، یعنی کہنے والے اور سننے والے کے درمیان انہیں کی بنیاد پر ایک فکری رشتہ قائم ہوتا تھا۔اکثر رسائل پہلے سے نہیں لکھے گئے بلکہ عرفان وآگہی کے حصول کی خاطر جمع ہونے والے مریدوں اور معتقدوں کے مجمع میں فی البدیہہ ان کا اظہار ہوا۔ خواجہ بندہ نواز گیسودراز (ولادت ۳۰؍ ستمبر۱۲۲۱ء کے شکارنامے اور دوسرے رسائل آغاز کائنات، زندگی اور موت، حقیقت اور مجاز، کار دینوی اور ان کی نفسیات کے ایسے مسائل پر مبنی ہیں جو محض عارضی معنویت یا گزرے ہوئے زمانوں کے توہمات کی حیثیت نہیں رکھتے۔ فلسفیانہ موشگافیوں اور منطقی استدلال کے ذریعے انہیں سمجھنے اور سمجھانے کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ مثال کے طور پر ایک ’’شکار نامے‘‘ کا قصہ یوں ہے،’’ہم چار بھائی تو دیہات سے تھے۔ ان میں سے تین کا لباس نہیں تھا اور چوتھا برہنہ تھا۔ جو بھائی برہنہ تھا، اس کی آستین میں نقص تھا۔ ہم چاروں تیز کمان خریدنے بازار گئے۔ قضا آئی اور چاروں کے چاروں مارے گئے اور چوبیس زندہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس وقت چار کمانیں نظر آئیں۔ تین ٹوٹی ہوئی اور ناقص تھیں اور ایک بے خانہ اور بے گوشہ۔ اس برہنہ بھائی نے جس کے پاس پیسے تھے اس بے خانہ اور بے گوشہ کمان کو خریدا۔ تیر کی فکر ہوئی۔ چار تیر نظر آئے۔ تین ٹوٹے ہوئے تھے اور چوتھے میں پر اور پیکان نہیں تھے۔ ہم نے بے پروپیکان تیر کو خریدا، اور شکار کی تلاش میں صحرا کو روانہ ہوئے۔ چار ہرن نظر آئے۔ تین مردہ تھے اور چوتھا بے جان تھا۔ بے جان ہرن پر بے پروپیکان تیر چھوڑا گیا۔اب شکار کے باندھنے کے لیے فتراک چاہئے۔ چار کمندیں نظر آئیں۔ تین پارہ پارہ تھیں اور ایک کے کنارے اور وسط نہیں تھے۔ شکار اس بے کنارہ اور بے میانہ کمند میں باندھا گیا۔ اب ٹھہرنے کے لیے اور شکار کو پکانے کے لیے گھر چاہئے تھا۔ چار گھر نظر آئے۔ تین ٹوٹے ہوئے تھے اور ایک کی چھت اور دیواریں غائب تھیں۔ ہم اس بے سقف اور بے دیوار گھر میں داخل ہوئے۔ وہاں اونچے طاق پر ایک دیگ دکھائی دی۔ کسی ترکیب سے وہاں ہاتھ نہیں پہنچتا تھا۔۔ چار گز گڑھا پاؤں کے نیچے کھودا گیا تب کہیں ہاتھ دیگ تک پہنچ سکا۔ جب شکار پک کر تیار ہوا، ایک شخص گھر کی دیوار کے اوپر سے اترا اور کہا، ’’ہمارا حصہ دو کیوں کہ یہ فرض ہے۔‘‘ برادر کامل کمیں میں بیٹھا تھا۔ شکار میں سے ایک ہڈی کو دیگ سے نکالا اور سرپر مارا۔ اس کی ایڑی سے ایک زرد آلو کا درخت اگ آیا۔ہم اس درخت پر چڑھ گئے۔ دیکھا کہ خربوزے بوئے گئے ہیں، جن کو فلاخن سے پانی دیا جاتا ہے۔ اس درخت سے ہم نے بیگن توڑے اور قلیہ بنایا اور دنیا والوں کو دیا۔ اتنا کھایا کہ پھول گئے۔ سمجھے کہ ہم موٹے ہوگئے ہیں۔ گھر کے دروازے سے ہم نکل نہیں سکتے تھے اور نجاست میں پڑے رہے اور ہم آسانی کے ساتھ اس گھر کی قید سے باہر نکل آئے اور گھر کے دروازے پر سوئے اور سفر پرروانہ ہو گئے۔۔۔‘‘ یہاں اس قصہ کے سلسلے میں ذیل کی باتوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے،(۱) انتہائے کار دینوی اور حقیقت انسانی کے مسئلے کو متضاد اور باہم متصادم تلازموں کی مدد سے بیان کیا گیا ہے۔(۲) غیر استدلالی علامتیت کا وہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے جو اساطیر، خواب اور شاعری میں مشترک ہے۔(۳) یہ پیرایۂ بیان مسائل کو مؤثر بنانے کے لیے ہے۔ مسلمان صوفیانے یہ طریقہ ہندوستانی اساطیر سے اخذ کیا تھا۔ اس کی مثالیں گیانیشور (وفات ۱۳۹۲ء) اور ایک ناتھ کے معموں میں بھی ملتی ہیں۔(۴) اس قصے کی شرحیں مختلف زبانوں میں لکھی گئیں۔ ’’مجموعۂ یازدہ رسائل‘‘ میں سات شرحیں موجود ہیں۔ اس حوالے کا مقصد یہ ہے کہ غیر استدلالی اور خود تردیدی اظہار کی معنویت کے لیے مدلل جواز کی جستجو ہو سکتی ہے۔(۵) درس وتدریس اور تلقین کا بنیادی موضوع عقیدہ ہو یا فکر، ترسیل کے دوطرفہ اصول کا پابند ہوتا ہے۔(۶) یہ طریقہ اس وقت رائج تھا جب سائنسی طرز فکر عام نہیں تھا لیکن دلیل اور منطق سے لوگ واقف تھے۔ہم غلطی کریں اگر یہ کہیں کہ چوں کہ اس قصے کا تعلق بنیادی طور پر ایسے معتقدات سے ہے جو ہمارے لیے معنویت نہیں رکھتے، اس لیے یہ طریقہ بھی غلط یا بے معنی ہے۔ اول تو لایعنیت بجائے خود ایک معنوی جواز رکھتی ہے۔ دوسرے عقیدے میں یقین اور بےیقینی کے سوال سے الگ ہوکر اس قصے کو ایک شعری عقیدہ سمجھ کر ہم بھی اس سے لطف لے سکتے ہیں، یعنی وہ اصول اپنانا چاہئے جسے ایلیٹ نے دانتے کے سلسلے میں مناسب قرار دیا ہے۔ دینیات اور شعری دینیات کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔شاعری کو اگر شاعر کی سوانح عمری یا تہذیبی اور تصوراتی تاریخ سمجھ کر پڑھا جائے تو اکثر بات نہیں بنتی۔ اعلا شاعری’’معنی کا ایک دائمی نقش ہے۔‘‘ جس کی تازگی پاؤنڈ کے قول کے مطابق دبائی نہیں جا سکتی یا لازوال ہوتی ہے۔ کلیم الدین احمد نے ’’اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے۔‘‘ کی کچی جذباتیت کو راشد کے سرمنڈھ دیا تھا جب کہ یہ جذبہ اس کردار کا بھی ہو سکتا ہے جو اس نظم کا موضوع ہے۔ انسان کو اس کے تضادات کے ساتھ قبول نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے بہت سے ذہنی، حسی اور عملی مظاہر ہمارے لیے ناقابل فہم ہوتے ہیں۔ پکا سونے ایک بار اپنی ہی بنائی ہوئی ایک تصویر کو یہ کہہ کر اپنانے سے انکار کر دیا تھا، I OFTEN PAINT FAKESخواجہ بندہ نواز گیسودراز کے شکار نامے میں یہ بیک وقت تعمیر وتخریب یا اثبات اور نفی کے عمل کو جس طرح برتا گیا ہے، اس کا ذہنی تضادات سے کوئی علاقہ نہیں۔ ڈیلن ٹامس نے ایک خط میں (اپنے دوست HENRY FREELAکے نام) اس نکتے کی وضاحت بہت عمدگی سے کی ہے۔ لکھتا ہے،’’میری ہر نظم کو پیکروں کا ایک جمگھٹ درکار ہوتا ہے کیوں کہ اس کا مرکز ہی پیکروں کا جمگھٹ ہے۔ میں ایک پیکر تعمیر کرتا ہوں (گوکہ تعمیر کا لفظ یہاں مناسب نہیں) بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ شاید میں حسی سطح پر اپنے اندر ایک پیکر کی تعمیر کو قبول کرتا ہوں۔ پھر اپنی تنقیدی استعداد کی مدد سے پہلے پیکر کو ایک دوسرے پیکر کی طرف متوجہ کرتا ہوں حتی کہ دوسرا پہلے کو رد کردیتا ہے اور دونوں کی آویزش سے ایک تیسرا پیکر وجود پذیر ہوتا ہے۔۔ پھر ایک چوتھا تردیدی پیکر سامنے آتا ہے اور یہ باہم متصادم ہو جاتے ہیں۔ ہر پیکر اپنے اندر اپنی ہی تخریب کی استعداد رکھتا ہے۔ اس طرح میرا جدلیاتی طریقہ، جہاں تک میں سمجھتا ہوں احساس کے بنیادی تخم سے پیکروں کے بننے اور بگڑنے کا مسلسل عمل ہے، بہ یک وقت تعمیری بھی اور تخریبی بھی۔‘‘ اور آگے لکھتا ہے، ’’میری ہر نظم کی زندگی (یعنی تاثر) کا ارتکاز کسی بنیادی پیکر پر نہیں ہوتا۔ اس زندگی کو اپنے مرکز سے نکلنا چاہئے۔ ایک پیکر کو بننا اور پھر دوسرے میں ضم ہو جانا چاہئے اور میرے پیکروں کی ہر ترتیب کو تخلیق، تخلیق نو، تخریب اور تصادمات کی ترتیب ہونا چاہئے۔‘‘آپ اس اصول کے قائل ہوں یا نہ ہوں، بہر صورت یہ ایک طریقہ ہے شعر کی ہیئت کو نثر کی مدلل قطعیت سے بچانے کا۔ پو (POE) نے اسی نکتے کو اس طرح واضح کیا ہے کہ قطعیت کا فقدان ہی سچی شاعرانہ موسیقی کا جزو ہے۔ مشہود پیکروں کو خلط ملط کرنے کے بجائے حواس کے اشارات اور خیالی پیکروں کا انوکھا آمیزہ شعر کو اس رمزیت سے ہم کنار کرتا ہے جو طوالت اور تفصیل یادلیل کے باعث علمی نثر کے حدود سے باہر ہے۔ بصری ادراک میں ا یک پیکر اپنی مکمل صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے، جب کہ اس کے بیان کے لیے ہمیں منزل بہ منزل ایک مسلسل ارتقائی طریقہ اپنا نا پڑتا ہے۔ تخیلی قوتوں سے ان کے درمیان نئے روابط کی دریافت کرتا ہے اور اس طرح انہیں ایک دوسرے سے قریب کر دیتا ہے۔ اس واقعے کی دلچسپ مثالیں امیر خسرو کے دوسخنوں اور نسبتوں میں ملتی ہیں۔ کھیر، چرخا، کتا اور ڈھول والے لطیفے میں (جو آب حیات میں نقل ہے) ان سب کا باہمی ربط دیکھیے،کھیر پکائی جتن سے چرخا دیا جلاآیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجایابادشاہ اور مرغ میں کیا نسبت ہے، تاجگوٹے اور آفتاب میں کیا نسبت ہے، کرناور یہ دوسخنہ ہے،ڈوم کیوں نہ گایا گوشت کیوں نہ کھایا(جواب ایک ہے، گلانہ تھا)ظاہر ہے کہ شاعری معما سازی اور کہہ مکرنیوں اور نسبتوں کا لطیفہ نہیں۔ لیکن ان کی مشترکہ قدر ایک ہی شے میں نئے ابعاد کی تلاش یا مختلف اشیا میں نئے رشتوں کی جستجو اور دریافت ہے۔ تخلیقی عمل میں روز کی جانی بوجھی اور برتی ہوئی حقیقتیں بھی نودریافت ابعاد کی آمیزش سے ایک انوکھے وجود میں ڈھل جاتی ہیں۔ یہی رویہ ایک تصور کو مختلف زمانوں یا مختلف اذہان میں الگ الگ معنویت سے روشناس کرتا ہے۔ باہمی مماثلت کے باوجود ایک پیکر یا موضوع اعلا شاعری میں دو مختلف مقامات پر مختلف معانی بھی رکھتا ہے۔ ان کے درمیان حد فاصل، محل استعمال کے اختلاف یا دو مفرد اور منفرد شخصیتوں کے باطنی رشتوں سے پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح کل کا کوئی تجزیہ آج کا بھی ہوسکتا ہے۔ حقیقت پسندی کا یہ تصور مضحکہ خیز ہے کہ جو واقعہ ہوا نہیں وہ شعری تجربہ کیسے بن سکتا ہے۔ لمحاتی سچائیوں یا عارضی حالات کی روشنی میں بعض افکار اس لیے بھی ناقابل فہم ہوتے ہیں کہ ایک تو ان کا مادی وجود نہیں ہوتا، دوسرے ان کارشتہ وقت کے ایک ایسے تصور سے ہوتا ہے جہاں ماضی، حال اور مستقبل کی تفریق ختم ہو جاتی ہے۔ شاعری میں نفس مضمون کو عصری حالات سے خلط ملط کرنے کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اظہار کے جن لہجوں، زاویوں اور پیکروں سے قاری کا ذہن ہم آہنگ ہے، ان سے مختلف لہجے یا زاویے یا پیکر میں وہی نفس مضمون اس کے لیے پہیلی بن جاتا ہے۔ شاعری میں مضمون کی دلیل پر جان دینے والوں کو ایلیٹ نے تو خیر کچھ زیادہ ہی درشت لہجے میں یاد کیا ہے یعنی ایسا نقب زن جو اپنے کتے کے لیے بسکٹ بھی اٹھا لے جاتا ہے، لیکن یہ حقیقت مسلم ہے کہ شاعری میں صرف مضمون پر سارا ارتکاز یا موضوعاتی مماثلت سے ابھرنے والی غلط فہمیاں قاری کو شاعر سے بہت دور ہٹا دیتی ہیں۔ اور بہ مشکل کچھ اس کے ہاتھ بھی آتا ہے تو ایک ایسا خیال جس کی حیثیت انسانی فکر کے ذخیرے میں ایک معمولی روڑے سے زیادہ نہیں رہ جاتی ہے۔میرا جی کی نظم جاتری کا عنوان تھوڑی دیر کے لیے ذہن سے نکال دیجئے تو اس نظم کے مسلسل حرکت پذیر آہنگ اور ہر لفظ کے روزن سے جھانکتے ہوئے سادہ ورنگین، اداس اور شادماں خیالی پیکر تجسیم کے عمل سے گزر کر نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ بدلتے ہوئے مناظرکا سحر بڑھ جاتا ہے۔ عنوان میں چوں کہ پورے بصری ادراک اور شعری تجربے کا نچوڑ آ گیا ہے اس لیے نظم کی رمزیت وتکرار سے نموپذیر تسلسل اور سفر کے لمحہ بہ لمحہ بڑھتے پھیلتے دائروں میں بے نام ونشان وجودی اکائیوں کے ظہور اور غیاب کا حزنیہ تاثر سست رو لیکن دور رس ہے۔ اس نظم میں مختلف مناظر اور ایک دوسرے الجھتی ہوئی تصویریں مربوط ہوکر ایک کل کی تشکیل کرتی ہیں۔ یہ نظم منتشر ذہنی اور حسی تجربوں کی بنیاد پر ایک منظم تصویر اور ایک مسلسل ومحرک عمل کو واضح کرتی ہے۔ اقتباس دیکھئے،’’ایک آیا۔ گیا۔ دوسرا آئے گا، دیر سے دیکھتاہوں، یوں ہی رات اس کی گزر جائےگی۔ میں کھڑا ہوں یہاں کس لیے مجھ کو کیا کام ہے، یاد آتا نہیں، یاد بھی ٹمٹماتا ہوا ایک دیا بن گئی، جس کی رکتی ہوئی اور جھجھکتی ہوئی ہر کرن بے صدا قہقہہ ہے مگر میرے کانوں نے کیسے سن لیا۔ ایک آندھی چلی، چل کے مٹ بھی گئی، آج تک میرے کانوں میں موجود ہے سائیں سائیں مچلتی ہوئی اور ابلتی ہوئی پھیلتی پھیلتی۔ دیر سے میں کھڑا ہوں یہاں، ایک آیا، گیا، دوسرا آئے گا، رات اس کی گزر جائےگی، ایک ہنگامہ برپا ہے، دیکھیں جدھر آ رہے ہیں کئی لوگ چلتے ہوئے اور ٹہلتے ہوئے اور رکتے ہوئے، پھر سے بڑھتے ہوئے اور لپکتے ہوئے آرہے جا رہے ہیں ادھر سے ادھراور سے ادھر۔ جیسے دل میں میرے دھیان کے لہر سے ایک طوفان ہے ویسے آنکھیں مری دیکھتی ہی چلی جا رہی ہیں کہ اک ٹمٹماتے دیے کی کرن زندگی کو پھسلتے ہوئے اور گرتے ہوئے ڈھب سے ظاہر کیے جا رہی ہے۔ مجھے دھیان آتا ہے اب تیرگی اک اجالا بنی ہے، مگر اس اجالے سے بنتی چلی جا رہی ہیں وہ امرت کی بوندیں جنہیں میں ہتھیلی پہ اپنی سنبھالے رہا ہوں۔۔۔‘‘ اس نظم میں دھندلی پرچھائیاں اور جیتے جاگتے چہرے، بیتی ہوئی فصلیں اور کانوں سے ٹکرائی ہوئی آوازوں کا پرشور سیلاب، یادیں اور سچائیاں، ایک لمحہ میں کئی لمحے بہ یک وقت یکجا ہو گئے ہیں۔ آئینے کے ننھے ننھے ٹکڑے جو ایک دوسرے میں پیوست ہوکر الگ الگ تصویروں کو جوڑ کر ایک مکمل تصویر بناتے ہیں، اس نظم میں بہ یک وقت اپنے انفرادی وجود کا احساس بھی دلاتے ہیں اور ان سب کی ترتیب سے صورت پذیر ہونے والے ایک نئے اور وسیع تر وجود کا بھی۔ یہاں شعور اور لاشعور ایک ساتھ مصروف عمل ہیں لیکن ان کا تصادم منظر کے تعمیری خطوط کو گڈمڈ نہیں کرتا۔ اس نظم میں تجربے کا مفہوم لفظوں کے علاوہ ان کے درمیانی وقفوں میں بھی موجود ہے، جن کی خاموشی کو آہنگ کا تسلسل آواز عطا کرتا ہے۔مثال کے لیے ذہن میں کسی نغمے کا تصور لائیے جس کے الفاظ آہنگ کی روپر بڑھتے، پھیلتے اور سمٹتے رہتے ہیں۔ لیکن نہ بکھرتے ہیں نہ مسخ ہوتے ہیں۔ اس نظم میں ہر تصویر اپنے بعد آنے والے پیکر میں گم ہوجاتی ہے۔ لیکن تصادم یا شکست وریخت کا کوئی تاثر نہیں ابھرتا۔ یہاں میرا جی ہی کے لفظوں میں ’’دھیان کی موج‘‘ آزاد ذہنی تلازموں کو داخلی تسلسل کے ایک دھاگے میں پروکر نظم کو ایک و حدت کی شکل دیتی ہے۔ رسمیت زدہ شاعری اپنے ابلاغ کے لیے قاری سے ذہنی یا تخیلی قوت کے کسی استعمال کا مطالبہ نہیں کرتی، لیکن اس نظم کو سمجھنے کے لیے حواس کی مختلف قوتوں یعنی سماعت، بصارت، احساس اور فکر، ان سب کا اجتماع ناگزیر ہے۔واقعہ یہ ہے کہ معنی کی کئی سطحوں کی طرح تفہیم کی بھی کئی سطحیں ہوتی ہیں۔ ویسے بھی ضروری نہیں کہ شعر کے کسی نمونے کی تفہیم میں قاری معنی کی ایک ہی سطح پر ہمیشہ جما رہے۔ ذہنی ارتقاء، ماحول کی تبدیلی، زندگی اور فن کی طرف رویے کی تبدیلی یا ذاتی تجربے کی کسی کیفیت کے باعث ایک ہی شعرمختلف موقعوں پر قاری پر لفظ ومعنی کے نئے اسرار منکشف کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ شعرکی ہیئت بدستور قائم رہتی ہے۔ تبدیلی کا عمل قاری کی ذہنی فضا میں ہوتا رہتا ہے۔ ایک ایسا شخص جو کسی زبان کے مروجہ اسالیب اور اس کی تہذیبی معنویت سے آگاہ نہیں، شعر سے قطع نظر کاروباری ضرورتوں کی زبان میں بھی ایسے تجربوں سے دوچار ہو سکتا ہے جن میں اظہار کا ایک پیرایہ مختلف معانی، یا ایک ہی جملے میں دو باہم متضاد لفظوں کے استعمال کے باعث اس کے نزدیک کوئی معنی نہ رکھتا ہو۔(۱) آپ آئیں گے نا۔(۲) میں نے آپ کو دیکھا تھا، آپ نظر نہیں آئے۔(۳) آپ کی ذہانت کا جواب نہیں۔(۴) بہت خوب! یہ کام آپ ضرور کرلیں گے۔پہلے جملے میں ’’نا‘‘، ’’ہاں‘‘ کا مترادف ہے۔ دوسرے میں دیکھا تھا اور نظر نہیں آئے کے درمیان کوئی بصری یا واقعاتی تضاد نہیں۔ تیسرے جملے میں ذہانت کے معنی حماقت بھی ہو سکتے ہیں۔ آخری جملے کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کام آپ کے بس کا نہیں۔ بول چال کی زبان میں ایسی مثالوں سے ہرشخص کا سابقہ پڑتا رہتا ہے۔ یہاں لفظوں کا کوئی تخلیقی استعمال نہیں لیکن آہنگ کے دباؤ اور مختلف النوع کیفیتوں کے باعث الفاظ لغوی معنوں سے الگ بھی نظر آتے ہیں۔ اخبار کی سرخیاں تفصیلات سے اس حدتک خارج ہوتی ہیں کہ قواعد کی رو سے انہیں ایک مکمل یا مربوط اظہار بیان نہیں کہا جا سکتا لیکن ان میں پوری خبر کے CONDENSATION کی وجہ سے وضاحت اور معنی کی وہ قطعیت نظر آتی ہے جو ایجاز کے باوجود شعر میں نہیں ہوتی۔ اس فرق کی بنیاد یہ ہے کہ اخبار کی خبر صحافی کا شعری تجربہ نہیں ہوتی (جہاں یہ ہوتاہے، ادب اور صحافت آپس میں گڈمڈ ہو جاتے ہیں) اور شاعری صرف بیان واقعہ نہیں۔ اسی لیے اثر لکھنوی کی چھان بین میں یہ حقیقت سامنے نہیں آتی کہ فیض کے نزدیک ’’کھیت میں بھوک کس طرح اگتی ہے کیوں کہ کھیت ارضی حقیقت ہیں اور بھوک ایک ذہنی تجربہ۔ لیکن شاعری میں یہ سب ممکن ہے۔ اس دائرے میں خیالی پیکروں کی تجسیم ہوتی ہے اور جیتی جاگتی مشہود صداقتیں تجرید کے ایک عمل سے گزر کر صرف تاثر بن جاتی ہیں۔ اس عمل میں ’’چاند کو چھونا اور پھول کو پی لینا نظرمیں پھولوں میں کا مہکنا‘‘ پاس سے گزرنے والی پرچھائیں کا صدیوں کے فاصلے پر نظر آنا بیتے ہوئی دنوں کے جنگل میں یادوں کے سحر سے ایک موجود حقیقت کا پتھر میں ڈھل جانا چٹانوں کی قید میں دریاؤں کا اکتا نا اور گاؤں جزیرے، شہر کا بہنے لگنا بستی کا شکار ہونا اور شام کا ایک خوں خوار بھوکے چیتے میں بدل جانا یہ سب عجوبہ نہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ان مثالوں میں ہر لفظ کے معنی لغوی ہوں۔بستی یادوں اور تجربوں کی وہ آماجگاہ بھی ہو سکتی ہے جس سے انسان عبارت ہے اور شام کا مطلب زندگی کی شام بھی ہو سکتا ہے یا بستی سے مراد ایک ننھی پنچھی کا وہ گھروندہ بھی ہو سکتا ہے جو اس نے اپنی گڑیوں کے لیے بنایا ہے اور جسے ایک سانولا لڑکا اپنی شرارت سے مسمار کرنے کے درپے ہے۔ سوئن برن کا ایک مصرع ہے، LIGHT IS HEARD AS MUSIC. MUSIC SEEN AS LIGHTآپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو کی اپنی روایتی شاعری میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ نشیمن، کارواں، صحرا، گلچیں، شمع، پروانہ یا دل سے جگر تک نگاہ کا اتر جانا اور بوئے گل کے عوض ہوا میں رنگوں کو دیکھنا وغیرہ وغیرہ۔ ان کا لغوی زبان سے کیا رشتہ ہے؟ یہ سب سمجھ میں آنے والی باتیں ہیں لیکن سورج کی چونچ میں مرغ یا کرسی کے آغوش وا کرنے کا کیا جواز ہے۔ یہاں روایت کے تہذیبی رشتوں، رسمی مذاق کے فرسودہ مطالبات اور مختلف زمانوں میں مختلف ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی سطح پر زندگی گزارنے والے انسانوں کے درمیانی فاصلوں اور امتیازات کو سمجھنا ضروری ہوگا۔ ہر عہد اپنی ذہنی رویہ اور ہر رویہ اپنے اظہار کی ہیئتوں کا انتخاب اپنے میلان، ضرورتوں اور حسی تجربوں کے جبر کے تحت کرتا ہے، اس میں بھی ذاتی تجربے، مطالعے، تربیت، شعور اور فن کی طرف رویے یا حدود مزید امتیازات کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ جوش ملسیانی کا یہ شعر،قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفس پرور ہوا خطّ جام مے، سراسر رشتۂ گوہر ہوااس تشریح کے باوجود علی لااعلان مہمل قرار دیتے ہیں کہ اس شعر کو بھی الفاظ کا طلسم کہنا چاہئے۔ مفہوم یہ ہے کہ شراب کا قطرہ حسن ساقی سے حیرت زدہ ہوکر نفس پرور ہوگیا۔ یعنی گرفتگی اور دل بستگی کے عالم میں آ گیا اور بجائے ٹپکنے کے برابر بوندیں تھم کر منسلک موتیوں کی طرح نظر آنے لگیں۔ پیالے کا خط ان موتیوں کے لیے تاگا بن گیا۔ اس تشریح کے باوجود یہ شعر اہمال کے درجہ میں پہنچا ہوا ہے۔ وجہ یہ کہ حاصل مضمون کچھ نہیں۔قطع نظر اس کے کہ اتنی تشریح کے بعد مہملیت کا الزام آپ ہی رد ہو جاتا ہے اور حاصل مضمون کے بارے میں ایلیٹ کا ایک دلچسپ قول اسی مضمون میں پہلے نقل کیا جا چکا ہے۔ اس تشریح کا عیب یہ ہے کہ غالب کے جمالیاتی تجربے کا (یہ آپ کی مرضی پر ہے کہ اسے اچھا سمجھیں یا معمولی) احاطہ نہیں ہو سکا ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہرشاعر قابل لحاظ اور معتبر تنقیدی نظر بھی رکھتا ہو۔ ناسخ کا یہ شعر،ٹوٹی دریا کی کلائی زلف الجھی بام میںمورچہ مخمل میں دیکھا آدمی بادام میںکم فہموں کے امتحان کے لیے تھا۔ لیکن ناسخ، اچھے یا برے، بہرحال شاعر تھے اور لفظوں کی ایک مخصوص تنظیم سے بیان کو موزوں کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ ’’ان کے نزدیک بے معنی ہوکر‘‘ بھی یہ شعر چوں کہ موزونیت کے ایک ذہنی عمل کا نتیجہ تھا، اس لیے غیر استدلالی ہونے کے باوجود بے معنی نہیں ہو سکا۔ یہ خواب یا خواب سے مماثل کسی لاشعوری تجربے کا بیان بھی ہو سکتا ہے۔ کس بلا کا قہر تھا جس نے دریا (دیوی، عورت) کی کلائی توڑدی اور طوفان کے جھونکے اس کی زلف (لہروں) کو اچھال کر بام (فلک) تک لے گئے۔ خوف اور حیرت کے اس عالم میں ہم (آدمی) مجسم آنکھ (بادام) بن گئے تھے اور مخمل (بستر) ٹین کی ٹھنڈی بوسیدہ چادر (مورچہ کی رعایت سے) جیسا محسوس ہو رہا تھا۔ اس مثال کا مقصد یہ ہے کہ شاعر انتہائی معمولی اور برے شعرکی تخلیق پر بے مثال اور حیرت انگیز قدرت کا مالک ہو سکتا ہے لیکن بے معنی کا بے معنی اظہار اس کے ذہنی عمل کے دائرے میں ممکن نہیں۔شاعری کی زبان اور قواعد یا لغت کی زبان کے فرق اور آہنگ میں معانی کے مباحث کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے۔ اب ایک اور مسئلے کی طرف آئیے۔ جوش ملیح آبادی سے روایت ہے (بہ حوالہ آپ، محمد طفیل) کہ شاعر کسی نظم یا شعر کے عین مین وہی معانی جو اس کے ذہن میں ہیں، قاری کے ذہن تک پہنچانے میں ناکام ہوتا ہے تو عاجز البیان ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں، اگر کسی شعر سے بہ یک وقت دویاد و سے زائد مفاہیم کا استخراج ہوتا ہے تو شاعر بیان پر قادر نہیں۔ اس واقعے سے قطع نظر کہ جوش صاحب کی بات صحیح ہوتو شرح وتنقید کے نتائج میں امتیازات ختم یا بجائے خود شرح وتنقید کا عمل غیر ضروری ہو جائےگا۔ اب معنی کی حرکیت اور لفظ سے اس کے رشتے پر بھی چند باتیں ہو جائیں۔ جو ش صاحب کی ایک نظم (جھومتی برسات) کا اقتباس ہے،اس رت میں خرابات کی پوشاک ہے دھانیاور جوش کے ساغر میں خرابات کی رانیاس شیخ سے کہہ دے کہ ارے دشمن جانیخاموش کہ اس وقت ہے موسم کی جوانیرخشندہ بہر کوچہ و رقصندہ بہر کواے دولت پہلوہاں تان اڑتان قمر پارہ وہ گل رواے دولت پہلواے زینت پہلواے جنت پہلواے آفت پہلوادبی مسائل سے گہری واقفیت رکھنے والے ایک سامع کو بند کے آخیر میں ’’اے دولت پہلو‘‘ سے ’’اے آفت پہلو‘‘ تک یہ نظم سنتے ہوئے گمان ہوا تھا کہ سنانے والے نے نظم کے مکمل ہونے کے بعد اس کی پیروڈی شروع کر دی۔ سبب یہ ہے کہ ان مصرعوں میں لفظوں کے تواتر اور تبدیلی کے باوجود ایک ہی نقطے پر خیال کی تکرار اس طرح ہوتی ہے کہ تجربے یا مفہوم کی حدیں وسیع نہیں ہوتیں۔ اس کے برعکس یہ مصرعے دیکھیے،گرم لہو رگ رگ میں مچلتاساتھ ہے سپنوں کے پتیم کاخوشیوں کا جھولا ہے میراجھول رہی ہوں، جھول رہی ہوں، نرم بہاؤ، نرم اور تیز!جیون کی ندی رک جائے، رک جائے جیون کا راگرک جائے تو رک جائےرک جائے تو رک جائےرک جائے تو رک جائے (میراجی، کیف حیات)یہاں آخری حصے میں بیان کے ایک ہی ٹکڑے کی مسلسل تکرار کے باوجود تجربے کی واضح توسیع نظر آتی ہے۔ اور وہ متحرک بصری پیکر سامنے آ جاتا ہے جو جھولے کی متواتر پینگوں سے عبارت ہے۔ اسی طرح پیام مشرق کی نظم نغمۂ انجم میں اقبال نے ’’می نگریم ومی رویم‘‘ کی تکرار سے سفر حرکیت اور اس کے ارتقائی عمل کو لفظوں میں جذب کر لیا ہے۔ فارسی کے اس شعر،اے سارباں آہستہ راں کا رام جانم می رودواں دل کہ باخود دا شتم با دلستا نم می رودسعدیمیں ساربان کا لفظ قاری تک ایک تجربے کا مفہوم ہی نہیں پہنچاتا بلکہ اسے ایک منظر کو دیکھنے کی دعوت بھی دیتا ہے۔ اسی لفظ سے ان مصرعوں کی ایک مخصوص ساخت کا تعین ہوا ہے اور شعر کا مرکزی تصور اونٹ کی رفتار کے آہنگ میں شامل ہوکر یک جان ہو گیا ہے۔ اسی طرح لاہوتی کے اوپر’’کاوۂ آہنگراں‘‘ کے ایک گیت کا یہ ٹکڑا،درہمہ کاریدرہمہ کشورازہمہ دستیہست بالاتردست آہن گردست آہن گر
معنی کے پورے نقش کو اسی صورت میں ابھارتا ہے جب لوہار کے ہتھوڑے کی ضرب سے پیدا ہونے والے آہنگ سے کان آشنا ہوں۔ ان مثالوں میں معنی کی شراب شیشۂ آہنگ سے باہر اپنی قوت اور اثر انگیزی سے محروم ہو جاتی ہے۔ شاعر تخلیقی عمل میں حواس کے جن آلوں کو بروئے کار لایاہے، اس میں سے کسی کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ یا تو بے روح ترسیل ہوگا یا ترسیل کے دھارے ایک معمولی تجربے کے بیان کی حدوں سے باہر نہ جاسکیں گے۔ رچرڈس نے انسانی اظہار کی شکلوں کو سمجھنے کے لیے بالترتیب ۱۔ مفہوم ۲۔ تاثر۳۔ لہجہ اور ۴۔ ارادہ، ان چار زاویوں کی نشاندہی کی ہے۔ یعنی ارادہ جو اظہار کا محرک ہے اس کی جگہ آخری ہے۔ مفہوم تاثر اور لہجے کی منزلوں کو عبور کرنے کے بعد ارادے کی شکل عام ارادے سے مختلف ہو جاتی ہے اور قاری ہر ذاتی اور نظریاتی عصبیت سے الگ ہوکر فن کے وسیلے سے فکر یا تاثر کی منزل تک پہنچتا ہے۔ اس طرح یہ سفر الٹی سمت اختیار کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ پاؤنڈ کے کینٹوز پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایلیٹ لکھتا ہے،’’جہاں تک کینٹوز (CANTOS) کی فکری اساس کا تعلق ہے، یہ مسئلہ مجھے کبھی پریشان نہیں کرتا اور مجھے اس کی کوئی فکر نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ پاؤنڈ کے ذہن میں ایک خاکہ اورا س کے پس پشت ایک فکر ہے۔ یہی میرے لیے کافی ہے کہ پاؤنڈ اپنی بات کا علم رکھتا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ اس کے یہاں فکر ہے، لیکن مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ بات پاؤنڈ کے سلسلے میں ایک دوسرے مسئلے تک لاتی ہے۔ میں اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے شاذ ہی اس امر سے دلچسپی لی ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے بلکہ اس سے کہ وہ کیوں کر کہہ رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کچھ بھی نہیں کہہ رہا ہے کیوں کہ نہ کہنے کے طریقے دلچسپ نہیں ہوتے۔‘‘ اسی موقعے پر تخلیقی عمل کی حسی اور فکری پیچیدہ کاری کے مسائل آتے ہیں۔ کینٹوزپر رائے دیتے ہوئے اور آگے چل کر ایلیٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’جب تک آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہ ہو آپ کے الفاظ آپ کے لیے کچھ نہ کر سکیں گے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ شاعر کہنا کیا چاہتا ہے یا شاعری میں جو کچھ کہا جاتا ہے اس کی نوعیت کیا ہوتی ہے۔ تخلیقی عمل کا سفر اپنے تمام ارتقائی اور اظہاری مدارج میں مسلسل جاگتے رہنے کے عمل سے مختلف ہے۔ اس عمل میں پیکر پر چھائیاں بنتے ہیں اور خیالی تصویریں گوشت وپوست کے متحرک وجود میں ڈھل کر اپنے خون کی گرمی اور قرب کا احساس دلاتی ہیں۔ تخیلی پیکر اس خلا کو پر کرتے ہیں جو جسم وجان رکھنے والی اشیا اور شاعر کے درمیان موجود ہوتا ہے۔ بہ قول سوزان لینگر، ’’ان خیالی پیکروں کی مدد سے ہم نامعلوم دنیا کی خالی جگہوں کو بھی پر کر سکتے ہیں۔ ہم جب چاہیں ان خیالی پیکروں کو خارجی اور حقیقی واقعات میں خلل ڈالے بغیر توڑ بھی سکتے ہیں۔‘‘ یعنی عمل جسے ڈیلن ٹامس نے اپنا جدلیاتی طریقہ کار کہا ہے یا جس کا عکس میراجی کی نظم جاتری میں ملتا ہے۔ اس طرح تخلیقی عمل غیر حقیقی دنیاؤں تک رسائی کا وسیلہ بھی بنتا ہے لیکن یہ یادرکھنا ہوگا کہ غیر حقیقی دنیائیں ان حقیقتوں کی علامتیں ہوتی ہیں جو کسی لمحاتی اور بھولے ہوئے حسی تجربے کے بعد ذہن کی کسی نیم شعوری یا لاشعوری سطح پر زندہ رہتی ہیں۔ اس مسئلے کی وضاحت کے لیے سوزان لینگر کا ایک اور اقتباس دیکھئے،’’ممکن الادراک چیزوں کا دائرہ بالکل صاف اور واضح ہے یعنی صرف وہی چیزیں علم میں آسکتی ہیں جو استدلالی شکل میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اس دائرے سے باہر جو کچھ ہے وہ محض تاثرات، مبہم خواہشات، پیچیدہ احساسات اور داخلی تجربات ہیں جن کا اظہار ناممکن ہے اور جن کی صحیح ہیئت سے ہم ناآشنا اور جن کو دوسروں تک پہنچانے کی اہلیت سے محروم ہیں۔ وہ فلسفی جو ان چیزوں کو بھی دیکھ سکتا ہے اورظاہر کر سکتا ہے وہ فلسفی نہیں، صوفی ہے۔ ناقابل بیان دنیا کے متعلق جو کچھ بھی کہا جائےگا وہ بے معنی اور بے ربط الفاظ سے زیادہ کچھ نہ ہوگا، کیوں کہ ہمارا واحد ذریعہ اظہار یعنی زبان ان تجربات کو بیان کرنے سے قاصر ہے جو استدلالی صورت میں پیش نہ کی جا سکے۔لیکن ذہانت بڑی ہوشیار اور عیار شے ہے، اپنا راستہ خود بنا لیتی ہے۔ ایک دوازہ بند کر دیا جائے تو وہ دوسرا دروازہ ڈھونڈ لیتی ہے۔ اگر ایک علامت اس کے لیے ناکافی ہے تو وہ دوسری علامت اختیا ر کر لیتی ہے۔ اس کے سامنے ذرائع اور وسائل کی کوئی کمی نہیں۔ میں منطق اور لسانیات کے ماہرین کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ میں وہیں رک جاؤں جہاں وہ رک جائیں کیوں کہ میرے خیال میں استدلالی زبان کی منزل سے پرے بھی صحیح مفہوم کے ایسے امکانات موجود ہیں جنہیں اب تک دریافت نہیں کیا گیا۔‘‘ اس وضاحت کی روشنی میں تخلیقی عمل اور اس کے اظہار کا جائزہ لیا جائے تو مفید نتائج برآمد ہوں گے۔ استدلالی زبان کی حدوں سے پرے صحیح مفہوم کے امکانات کی جستجو اور حصول شعری اظہار کا ناگزیر تقاضا ہے کیوں کہ شاعری اپنے پرپیچ اور غیر استدلالی سفر میں ایک منزل پر فلسفہ یا مجرد فکر سے رشتہ توڑکر جزوی اور غیر اصطلاحی معنوں میں تصوف سے قریب آ جاتی ہے۔ یہاں ان کا سابقہ ان چیزوں سے ہوتا ہے جو ممکن الادراک چیزوں کے دائرے سے باہر ہیں۔ گم کردہ راہ کیفیتوں کا پرجوش لاوا منطق کی دیواروں کو گراکر پراسرار سمتوں میں بڑھتا اور پھیلتا جاتا ہے۔ اس لیے بعض صورتوں میں شاعر جن پیکروں سے روشناس ہوتا ہے وہ اس کے اور قاری کے درمیان معنوی اور جذباتی اشتراک کے باوجود اپنے رنگ وخط میں قاری کے ذہن میں موجود پیکر سے مختلف ہوتے ہیں خواہ ان کا نام ایک ہو۔ بلیک (BLAKE) نے کہا ہے،THE VISION OF CHRIST THAT THOUDOEST SEEIS MY VISIONS GREATEST ENEMY THINEHAS A GREATHOOK NOSE LIKE THINEMINE HAS A SNUB NOSE LIKE TO MINEانیسویں صدی کے فرانس میں علامت پسندی کا رجحان اصطلاحی معنوں میں متصوفانہ تھا۔ فن کے سائنسی تصور کے خلاف یہ رجحان ایک شدید ردعمل کا اشاریہ تھا۔ حقیقت پسندوں کو حسی ادراک کی حدوں سے آگے کسی برتردنیا میں عقیدے کی جستجو نہیں تھی۔ علامت پسندوں کے احتجاج کی بنیاد ایک ایسی مثالی اور خیالی دنیا میں یقین تھا جو مادی اشیا سے معمور دنیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ حقیقی تھی۔ ملارمے کے تجربات کا نچوڑ ادب کے ایک متصوفانہ تصور کی ایجاد ہے۔ ریں بو مصوتوں کو بھی رنگوں کی شکل میں دیکھنے پر قادر تھا۔ فن رقص پر ہندوستان کی قدیم ترین کتاب بھرت ناٹیہ شاستر مختلف کیفیتوں اور جذباتی ردعمل کی صورتوں (رسوں) کے اظہار کے لیے اعضا کی حرکت پر مبنی ایک خاموش حرکی زبان کا تصور پیش کرتی ہے جس کی مدد سے بہ یک وقت کئی کرداروں پر مشتمل ایک طویل داستان بیان ہو سکتی ہے۔مصوری کے تمام مکاتب میں رنگ صرف صورت گری کا وسیلہ نہیں، ایک گہرا علامتی مفہوم بھی رکھتے ہیں۔ ان تجربوں کا تعلق تخیل کی اس منزل سے ہے جسے وجدان کہا جاتا ہے۔ فرانسیسی علامت پسندوں میں سیاسی موضوعات یاکوری حقیقت نگاری کے نامطبوع ہونے کا سبب یہ تھا کہ وہ ان باتوں کو بازاری اور وجدان کے راستے کی دیوار سمجھتے تھے۔ اعلا شاعری کاایک اہم وصف یہ بھی ہے کہ وہ تحیر کے ایک تجربے سے شروع ہو اور اس کا اظہار قاری کو بھی حیرت سے دوچار کرنے کی قوت رکھتا ہو۔ تحیر کے اسی تجربے کے لیے کبھی کبھی شاعر ایسی غیر معمولی آزادیوں سے کام لیتا ہے جن کے باعث اظہار کے تدریجی تسلسل کا عمل مجروح نظر آتا ہے۔مثلاً میراجی کی نظم ’’بعد کی اڑان‘‘ میں کلموا، کالا، کوا، کاجل جوڈھلکتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ رخساروں کی طرف بڑھتا ہے، شاعر کے ذہن میں ایک کوے کی تصویر ابھارتا ہے۔ پھر طوفان اور کاجل (کوے) کی رعایت سے شاعر کا ذہن طوفان نوح کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور وہ روایت اس کے حواس کو گرفت میں لے لیتی ہے جس میں حضرت نوح اپنے بیٹوں کو فاختے کا پنجرہ کھولنے کی ہدایت دیتے ہیں تاکہ فاختہ جاکر خشکی کا پتہ چلائے۔ فاختہ کی ناکامی کے بعد اس امید پر کوے کو چھوڑا جاتا ہے کہ شاید وہی طوفان سے محفوظ خشک علاقوں کا پتہ لگانے میں کامیاب ہو جائے۔ تخلیقی عمل کا یہ انداز ایسی آزادی سے عبارت ہے جس کا حصول شعور کے تدریجی ارتقا کی پابندی میں ممکن نہیں۔ اس عمل کی کڑیاں بکھری ہوئی نظر آتی ہیں لیکن شاعر کا ادراک اپنی چھلانگوں سے انہیں سمیٹ لیتا ہے۔مگس کو باغ میں جانے نہ دیناکہ ناحق خون پروانوں کا ہوگایادعویٰ کروں گاحشر میں موسیٰ پہ قتل کاکیوں اس نے آب دی مرے قاتل کی تیغ کویہ اشعار بھی بہ ظاہر مبہم ہیں لیکن اس لیے سمجھ میں آ جاتے ہیں کہ ذہنی عمل کے تمام مدارج جو اختصار کے خیال سے حذف کر لیے گئے ہیں، اپنا منطقی جواز اور دلیل رکھتے ہیں۔ لیکن یہ برے اشعار ہیں کیوں کہ ان میں معنی کی و ضاحت کے بعد بھی کوئی شعری تاثر نہیں پیدا ہوتا۔ اعلیٰ تخلیقی استعداد اختصار یا دوراز کار تلازمات کی دریافت سے تجربے کو شعری تاثر سے ہمکنار کرتی ہے۔ لفظی حدود اور اعتقادات پر اس کے شاعرانہ اعتقادات اور برق خرامی غالب آجاتی ہے یعنی وہ کیفیت جو خواب اور لاشعوری کی سطح پر غیر متعلق اور ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر نظر آنے والی حقیقتوں میں ایک ربط ڈھونڈ لیتی ہے۔ مصوری اور شاعری کے ایک انتہا پسند نظریے کے مطابق صرف (داداازم) اسی سطح پر معافی کا انکشاف ممکن ہے۔یہاں بات ’’صرف‘‘ کی ہونے کے باعث بحث طلب ہوجاتی ہے ورنہ لاشعور کے وجود اور اس کی بے مثال قوتوں کی تائید دینی مفکروں ) مثلاً سینٹ ٹامس اکوئنس)، صوفیوں (JACOB BOCHME)، طبی معالجوں (مثلاً Paraulsus)، علمائے نجوم وریاضیات (مثلاً Fichter, Herder, Schelling, Hegel, Goethe) اکثر کے یہاں لاشعور کی تخلیقی قوتوں کا اعتراف ملتا ہے۔ گیٹے کا خیال ہے کہ انسان ہمیشہ شعوری حالت میں نہیں رہ سکتا اسی لیے اسے اپنے آپ کو لاشعور کے حوالے بھی کرنا چاہئے کیونکہ وہی اس کی بنیاد ہے۔ نطشے کے مطابق ہر علم کی توسیع کے لیے شعور کا لاشعور کی سطح تک پہنچنا ناگزیر ہے کیوں کہ لاشعور ہی سب سے بڑا اور بنیادی عمل ہے اور اتنا وسیع کہ شعور کی محدود دیواروں میں سمٹ نہیں سکتا۔۱۹۴۵ء میں امریکہ کے مشہور ریاضی دانوں کو ایک سوال نامہ بھیجا گیا جس میں ان کے طریق کار کے بارے میں سوالات تھے۔ آئن سٹائن کا جواب یہ تھا کہ گفتگو یا تحریر کی زبان اس کی فکر کے تعمیری اور ارتقائی عمل میں کوئی اہم حصہ نہیں لیتی۔ خیال کے تعمیری اجزا اسے کچھ مخصوص نشانات اور واضح پیکر نظر آتے ہیں جنہیں مرضی کے مطابق جوڑا اور دوبارہ خلق کیا جا سکتا ہے۔ رسل کو پہلی جنگ عظیم کے دوران فوجیوں سے بھری ہوئی گاڑیاں واٹر لو سے روانہ ہوتے دیکھ کر عجیب وغریب بصری تجربوں سے سابقہ پڑتا تھا اور ہمارے عہد کا سب سے بڑا عقلیت پرست عالم خیال میں لندن کو ایک غیر حقیقی دنیا کی شکل میں دیکھتا تھا، بکھرتے اور ڈوبتے ہوئے پل اور سارا شہر صبح کے کہرے کی طرح غائب ہوتا ہوا۔اپنی خود نوشت میں ایک مقام پر رسل نے لکھا ہے کہ جنگ کے زمانۂ اختتام میں سمندر، ستارے اور ویرانوں میں رات کی ہوا کے جھونکے اسے بعض اوقات ان انسانی چہروں سے زیادہ بامعنی نظر آتے تھے جنہیں وہ سب سے زیادہ عزیز رکھتا تھا۔ تجربے اور تصور کی یہ شکلیں، جیسا کہ ان کی نوعیت سے ظاہر ہے، شعور کے مادی تجربوں سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ ان کی اساس ذہنی عوامل اور ارتسامات ہیں لیکن احساس کی شدت اور ذہنی ارتکاز کا دباؤ انہیں عدم استدلال کی حدوں سے آگے نکال دیتا ہے۔ ذہن کی حدت مشہود تجربوں کو تجرید کے عمل سے گزارکر کس طرح ہمارے لاشعور کا جزور بنادیتی ہے، اس کی وضاحت مشہور سر رلیسٹ مصور ڈالی نے اپنی ایک تصویر میں غیر معمولی فنی مہارت کے ساتھ کی ہے۔ اس تصویر کا عنوان Persistence Of memory ہے۔ اس میں حواس کی گرمی سے پگھل کر زمان ومکاں کی دنیا نیم شعوری سطح میں ڈوبتی ہوئی دکھائی گئی ہے۔ وقت کا وہ تصور جو یادوں کی صورت میں حافظے کی ایک غیرمحسوس سطح پر مرتسم ہو جاتا ہے , زیریں سمتوں میں گھڑیوں کے پگھلتے اور بہتے ہوئے ڈھانچوں سے واضح کیا گیا ہے۔ ان مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ وجدان اور لاشعور کی بنیادیں بھی شعوری ہوتی ہیں لیکن جس طرح نیم بیداری یا خواب میں انسان مادی زندگی کے صدہا مظاہر سے بے نیاز ہوکر چند تصویروں پر ساری توجہ مرکوز کر دیتا ہے۔۔۔ اسی طرح شعری عمل میں فکر کی وہ کڑیاں جو نثری منطق کا ناگزیر جزو نظر آتی ہیں، حسی قوتوں کے ارتکاز، وسعت اور ایجاز کے اظہار کے باعث غیر ضروری معلوم ہوتی ہیں۔ بہ یک وقت کئی معانی کی ترسیل کا سبب، یا ان سب کے ابہام کی بنیاد بھی یہی ایجاز ہے۔ مثال کے لیے ایک نظم اور اس کے تجزیے کے چند زاویے دیکھئے،رات کی گہری تاریکی میںدروازے کی جھپکتی آنکھیںخاموشی کو دیکھ رہی ہیںآنگن میں اک کالا کبوتربیٹھا رستہ دیکھ رہا ہےآنے والے ایسے پل کاجب سورج کا دہکتا سینہبالکل ٹھنڈا ہوجائے گادروازے کی اوٹ سے نکلاایک سفید لپکتا سایہایک ہی پل آنکھوں نے دیکھااور نظروں سے دور ہواآنگن کی آواز کا جادواپنی کہانی بھول چکا ہےکالا کبوتر دیکھ رہا ہے (نظم اپنا مکان، شاد امرتسری)اس نظم کا تجزیہ چار مختلف افراد نے کیا ہے۔ الف کے نتائج یہ ہیں،(۱) یہ ایک جنسیاتی نظم ہے، تشنہ جنسی جذبے کی آسودگی کا نازک لمحہ اس نظم کا محور ہے۔(۲) اس نظم میں مکان کی علامت بدن کے لیے ہے، آنگن، ذہنی انسانی، دروازے، حواس خمسہ، کالا کبوتر، جنسی جبلت، سورج، جنسی جذبہ، سایہ، جنسی تشنگی اور آواز کا جادو اختلاط کے موقع پر بال کشا ہونے والے جنسی آہنگ کے لیے ہے۔(۳) الف یہ اعتراض بھی کرتا ہے کہ جنسی جذبے کے لیے سورج کی علامت اور وقوع کے لیے ہنگام شب، رات میں سورج کا تصور مضحکہ خیز ہے۔ ب کے نتائج یہ ہیں،(۱) عنوان کا ’’اپنا‘‘ اس بات کا متقاضی ہے کہ شاعر خالصۃً، شخصی تاثر کااظہار کرے لیکن پہلے بند کا آخری شعر اس تاثر کی نفی کرتا ہے کیوں کہ شاعر فوراً ذات سے آفاقیت پر آ جاتا ہے۔(۲) فکر کا پھیلا وتدریجی نہیں۔(۳) آخری بند میں ’’آنگن کی آواز کا جادو اپنی کہانی بھول چکا ہے۔‘‘ آخر جادو اپنی کہانی کیوں کر بھول سکتا ہے؟ جادو گرتو شاید بھول جائے۔(۴) اس نظم میں جزئیات اور مشاہدات کی منصوبہ بندی مفقود ہے۔ ج کے نتائج یہ ہیں،(۱) شاعر کی ازدواجی زندگی مسرت سے تہی ہے کیوں کہ اس کی رفیق حیات اس کے آئیڈیل سے بہت پست ہے۔(۲) لفظ کا لانا پسندیدگی کی علامت ہے۔(۳) سفید سایہ شاعرکی بیوی کی سہیلی ہے جسے اچانک وہ دیکھتا ہے اور عاشق ہو جاتا ہے لیکن وہ سایہ شاعر کو دیکھ کر پل بھر میں غائب ہو جاتا ہے اور گھر کی فضا سونی ہو جاتی ہے۔ د کے نتائج یہ ہیں،(۱) کالا کبوتر شاعر کی علامت ہے۔ اس طرح یہ نظم شاعر کے ذاتی تجربے کی داستان ہے۔(۲) مکان وہ درودیوار جو شاعر کی انفعالیت اور ناکام آرزوؤں نے اس کے گرد کھڑے کر دیے ہیں۔(۳) کالا کبوتر یعنی شاعر اس وقت کا منتظر ہے جب سورج سرد ہو جائےگا اور روشنی ہمیشہ کے لیے معدوم ہو جائےگی یعنی یہ دنیا ختم ہو جائےگی۔(۴) سفید لپکتا سایہ سراب امید ہے جو تاریک سایہ کے اژدہام میں گریزاں نظر آتا ہے اور گم ہو جاتا ہے۔(۵) یہ نظم ایک ’’تنزل پسند کردار‘‘ اور اس کے ’’منفی زاویۂ نظر‘‘ کو پیش کرتی ہے۔(۶) نظم میں جذبے اور شعور کی کارفرمائی نہیں بلکہ شاعر کی خالی خولی شخصیت اور اس کی بیمار ذہنیت کے واہموں اور وسوسوں کا ہاتھ ہے۔خود شاعر نے اس نظم کی تشریح یوں کی ہے،(۱) یہ مکان کسی بھی انسان کا مکان ہو سکتا ہے۔(۲) آنگن آسائش کی علامت ہے۔(۳) کبوتر اپنی اڑان کی وجہ سے عقل اور فراست کی علامت ہے مگر یہاں کالے کبوترسے مراد انسان کی منحوس عقل ہے جو وجدان پر فتح کے باعث انسان کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔(۴) سایہ انسان کی عقل کا منحوس کرشمہ ہے اور آنگن کی آواز کا جادو وجدان اور آتما کی آواز کا جادو ہے۔یہاں اس سوال سے بحث نہیں کہ یہ نظم اچھی ہے یا بری، یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ الف، ب، جیم، دال یا خود شاعر کی تشریح سے حرف بہ حرف متفق ہوں۔ آپ اپنے طور پر بھی کسی نئی سمت میں معانی کی تلاش یا شعر کے تجربے کی دریافت کر سکتے ہیں۔ یہاں ان نقائص کی نشان دہی مقصود ہے جو الف، بے، جیم اور دال کے تجزیوں میں شعر کی تخلیق اور تفہیم کے بنیادی اصولوں کی نفی کرتے ہیں۔(۱) الف کا یہ اعتراض مناسب نہیں کہ رات میں سورج کا تصور مضحکہ خیز ہے۔ شعری اظہار لفظی اعتقاد سے پرے ایک شاعرانہ اعتقاد بھی رکھتا ہے۔ مثلاً غزل کے اس شعر،یہ کیسی شب ہے کہ دن سے زیادہ روشن ہے چمک رہے ہیں ہیں فلک پر ہزار ہا سورج (ناصرالدین)
میں رات کے ساتھ سورج کا انسلاک شعر کو بے معنی نہیں بناتا۔ اس شعر میں شب، فلک اور سورج اپنے لغوی معنوں میں استعمال نہیں ہوئے۔ یہی صورت حال اس نظم میں بھی موجود ہے۔ شعر کی نئی لسانی ہیئتوں پر معترض قاری اگر اس شعر کو بھی شاعر کی نامعقولیت سمجھتا ہے تو اصغر گونڈوی کا یہ شعر اس کی خدمت میں حاضر ہے،ہجوم غم میں نہیں کوئی تیرہ بختوں کاکہاں ہے آج تو اے آفتاب نیم شبیواقعہ یہ ہے کہ آدھی رات کا سورج شعری اظہار کے کسی بھی افق پر طلوع ہو سکتا ہے۔ اس میں نئے اور پرانے کی تخصیص نہیں۔(۲) بے، عنوان میں لفظ ’’اپنا‘‘ کی بنیاد پر نظم کو شاعر کی شخصی زندگی سے وابستہ کرتا ہے۔ شعری اظہار میں کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ واحد متکلم کے صیغے میں کسی بیوہ یا مریض یا دیوانے کی کہانی بیان کرنے سے شاعر بیوہ یا مریض یادیوانہ نہیں ہو جاتا۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر شعری تجربہ ذاتی تجربے کی بنیاد پر کیا جائے۔ ایلیٹ نے The Wasteland میں رسل کے ایک تخیلی تجربے کو بھی اس مہارت سے برتا ہے کہ وہ سچا شعری تجربہ بن گیا ہے۔(۳) ب کا یہ اعتراض بھی شعری منطق کے منافی ہے کہ فکر کا پھیلاؤ تدریجی اور مسلسل نہیں۔(۴) بے کے نزدیک جادو کا کہانی بھولنا قواعد کی زبان نہیں کیونکہ بھولنے کا عمل اگر ہو بھی تو جادوگر کا ہوسکتا ہے۔ قواعد اور اظہار کے مروجہ اسالیب کا اطلاق شاعری کی زبان پر ہمیشہ نہیں ہوتا۔ نظم ایک عضویاتی وحدت ہے، جس کا ارتقائی سفر کسی ایک ہی سمت میں نہیں ہوتا۔ مشاہدات کی منصوبہ بندی کے فقدان کا شکوہ بھی صحیح نہیں۔ یہ مطالبہ تفصیل چاہتا ہے۔ شاعری میں تفصیلات کی گنجائش نہیں ہوتی، کیوں کہ یہ بیان واقعہ نہیں بلکہ واقعے کے تاثر کا انکشاف ہے۔(۵) جیم نے بھی اسے ذاتی داستان سمجھنے کی غلطی کی ہے۔(۶) دال کے تمام اعتراضات ایک مخصوص نظریاتی وابستگی اور اس کے تعصبات پر مبنی ہیں۔وہ شعر کا ایک تعمیری نظریہ رکھتا ہے اور اسی نظریہ کے پیمانہ سے اسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ تجزیے کے سفر کی یہ سمت ہی غلط ہے۔ وہ اس نظم کے کردار کو تنزل پسند، بیمار ذہنیت، وسوسوں اور واہموں کا شکار سمجھتا ہے اور اس کے زاویہ نظر کو منفی قرار دیتا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ شاعری میں صرف زاویۂ نظر کی اہمیت مشکوک ہے، تجزیہ نگار کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ وہ اسے شاعر کی داستان بھی سمجھتا ہے۔ ایک بیمار اور غلیظ چہرے کی تصویر جو کراہت کا ردعمل پیدا کرنے پر قادر ہو، فن کا اعلا نمونہ سمجھی جاتی ہے۔ پھر یہ تصویر لفظوں میں ظاہر ہوکر شاعر کی بیمار ذہنیت اور تنزل پسند کردار (یہ اصطلاح بھی خوب ہے) کی تصویر کیوں بن جائے گی۔ یہ طرز فکر شعری جمالیات کی الف ب سے بھی ناواقفیت کی دلیل ہے۔ جمالیات کے مفکرین کی بات الگ رہی، اتنا تو منشی پریم چند بھی سمجھتے تھے کہ ادب میں حسن کا معیار قطعی اور یکساں نہیں ہوتا۔دراصل تفہیم وتجزیے کا عمل عام طور پر انہیں مظاہر کا پابند ہوتا ہے جو شعور کے فوکس (Focus) کے اندر ہوتے ہیں۔ اگر شاعر کے اظہار اور قاری کی تفہیم کے سانچوں میں مکمل ہم آہنگی ہوتو شاعری ایک معمولی اور مشینی عمل بن جائےگی۔ تخلیقی انفرادیت، قوت ایجاد کا مطالبہ کرتی ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ مناسب وقت پر بہت سی چیزوں کو ذہن کے حدود اور حافظے سے باہر نکال دیا جائے لیکن شعری تفہیم کا عمل بیشتر صورتوں میں وجدان سے عاری ہوتا ہے اور اس کا تعین ہوش مندی کے عاداتی عامل کرتے ہیں۔ کوئسلر نے تخلیقی عمل پر اپنی کتاب میں عادت اور انفرادی (Original) تخلیقی استعداد کے باہمی اختلاف وامتیاز کے پہلوؤں پر بہت اچھی بحث کی ہے۔بحث کے چند اہم نکات یہ ہیں کہ عادت ہمیشہ محدود دائروں میں تلازمات کی جستجو کرتی ہے۔ انفرادیت نیم شعوری طریق کار (Subconscious Method) کے ذریعہ اپنے سفر کی حدیں وسیع کر لیتی ہے۔ عادت ذہن کے حر کی توازن کو برقرار رکھتی ہے یعنی اس کی حرکت کا عمل بتدریج ارتقائی ہوتا ہے۔ انفرادیت نودریافت قوتوں کی مدد سے اس توازن پر غالب آنے کی استعداد رکھتی ہے۔ عادت راسخ اور بے لوچ ہوتی ہے، انفرادیت کی مثال گیلی مٹی کی ہوتی ہے جسے تخلیقی عمل کسی بھی شکل میں ڈھالنے پر قادر ہوتا ہے۔ عادت کی اساس تکراریت ہے۔ انفرادیت جدت اور انوکھے پن کی بساط پر قدم جماتی ہے۔ عادت قدامت پسند ہوتی ہے اور مسلمہ معیاروں کی گرفت سے نکلنے پر آمادہ نہیں ہوتی یا اس کا حوصلہ نہیں رکھتی۔ انفرادیت کا عمل تخریبی+ تعمیری یعنی تسلیم شدہ معیاروں کی بیخ کنی کے بعد ان کے ملبے سے انہیں کی بنیاد پر نئے معیاروں کی تعمیر کا ہوتا ہے۔لیکن تخلیقی انفرادیت، قوت ایجاد اور شعری عمل کی غیرمعمولی آزادیوں سے یہ مفہوم اخذ کرنا غلط ہوگا کہ شاعر کے سامنے کوئی حدہوتی ہی نہیں۔ شعری تجربہ یا تاثر وجدان کی سطح پر شاعر کو کتنی ہی مبہم، بے نام اور دھندلی کیفیتوں سے دوچار کرے اور حواس کی منطق سے خواہ کتنا ہی آزاد کیوں نہ ہو، اس کے فنی اظہار کا عمل ہمیشہ شعوری، متوازی اور جچا تلا ہوگا۔ شعر کی آمد اور آورد کا مروجہ تصور بہت گمراہ کن ہے۔ آمد سے مراد صرف یہ ہے کہ شاعر کے حواس اور ادراک کی قوتیں ایسے تجربوں اور رنگوں تک رسائی پر قادر ہیں جو غیر معمولی تخلیقی جنون اور حسی ارتکاز کے باعث نارمل عادات رکھنے والے انسانوں کے بس سے باہر ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ آمد شعری تجربے، تاثر یا کیفیت کی ہوتی ہے۔ لیکن شعر ایک لسانی صداقت ہے۔ جس کے حصول کی خاطر آمد کو ’’آوردن‘‘ کے سامنے گزرنا پڑےگا۔اعلیٰ اور ادنیٰ شاعری کا فرق یہی ہے کہ معمولی بصیرت اور ادراک رکھنے والا شاعر اپنے شخصی یا مستعار تجربوں اور خیالات کو فطری اور ناگزیر زبان عطا کرنے کا ہنر نہیں رکھتا جب کہ غیر معمولی استعداد سے بہرہ ور شاعر اپنے تجربے کی بنیاد پر آہنگ والفاظ کا ایسا پیراہن وضع کرنے پر قادر ہوتا ہے جو اس کے تجربے کا لباس ہی نہیں بلکہ اس میں جذب ہوکر خود تجربہ بن جاتا ہے۔ اس عمل میں جن انوکھی کیفیتوں کو لسانی ہیئت نہیں مل پاتی یا زبان کے اختصار اور تنگ دامانی کے باعث جو کیفیتیں ان کہی رہ جاتی ہیں، انہیں غیر معمولی شاعری آہنگ کے ارتسامات سے ہم رشتہ کر دیتی ہے۔لسانی صداقت فن شعر کا جبر ہے۔ اس سے روگردانی کرکے اشارات کی کسی ایسی زبان کو ذریعہ اظہار بنانا جو شاعر کی زبان کے زمرے ہی میں نہیں آتی، فن کی نفی ہے۔ مصوری نامصوریت (Painterliness) کی طرح فن شعر میں فن کی نفی سے کسی نئے تصور کی تشکیل اردو کی شعری روایت کا جزو نہیں بن سکی ہے لیکن ایسے تجربے ضرور ہوئے ہیں جن میں لسانی ہیئت کی شرط کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ میرا اشارہ عبدالمجید بھٹی کی نظم برہمن کی طرف ہے جس میں صرف چھن چھن کی تکرار جو برہمن کی پازیب اور گھر کے باہرہی دروازے کی زنجیر کے ارتعاش سے ابھرتی ہے، نظم کی ہیئت کا تعین کرتی ہے۔بیسویں صدی میں مغرب کی سب سے معروف رقاصہ ایزا ڈور اڈ نکن قدیم یونانی مجسموں کے عضوی تناسب سے ابھرنے والے بصری تاثر، سمندر کی لہروں کے آہنگ اور رفتار یا ہوا کے جھونکوں کی زد میں ڈالیوں اور پتوں کی کپکپاہٹ میں اپنے فنی اظہار کے نئے زاویے ڈھونڈ نکالتی تھی۔ اس کا کمال یہ تھا کہ اعضا کی حرکت، اشارات اور ان کے بصری اظہار سے اس نے رقص کی خاموش زبان کو بھی ایسے معانی عطا کیے جو مغربی رقص کے لیے نئے اور تازہ کار تھے لیکن یہ زبان شاعری کی زبان کیوں کر بن سکتی ہے۔امیر خسرو نے ایک مہمان کی طویل نشست کا سلسلہ ختم کرنے کے لیے آدھی رات کی نوبت کے صوتی تاثر ’’نان کہ خوردی خانہ برو‘‘ یاروئی دھننے کے آہنگ کو ’’درپئے جاناں جاناں ہم رفت‘‘ کی لفظی تنظیم سے منسلک کر دیا تھا۔ لیکن یہ لطائف عبدالمجید بھٹی کے تجربے کا جواز نہیں بن سکتے۔ اس تجربے کی شعری منطق میں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ نظم کا عنوان برہمن چھن چھن کی آواز کو ایک معنی عطا کرنے اور تاثر کی ایک سمت کا تعین کرنے میں معاون ہو سکتا ہے لیکن کوئی بھی تجربہ اپنی توسیع یا روایت سے اپنے رشتے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ رشتہ اگر بغاوت اور انقطاع کا ہے تو اس کا جواز بھی اس روایت کی خامیوں میں دریافت ہونا چاہئے۔لسانی صداقت اٹل ہے لیکن اس کا تصور اضافی ہے۔ چنانچہ شعر کی زبان میں تبدیلی اور توڑ پھوڑ ہمیشہ ہوتی رہی ہے۔ اعلا تخلیقی استعداد ان تبدیلیوں کی بنیاد پر اظہار کے نئے امکانات سے متعارف ہوتی ہے۔ موسیقی میں آہنگ کا زیروبم اور رفتار کا تاثر حسی کیفیتوں کا انکشاف کرتا ہے لیکن شاعری صرف موسیقی نہیں بلکہ موسیقی اور تخیلی یا حسی اظہار کا اتصال ہے۔اس طرح شعری اظہار کی اس ہیئت کے حدود کو بھی سمجھنا ضروری ہے جو اظہاریت کے رجحان کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ شاعری ’’اناپرستی‘‘ کی ایک منزل پر خود مکتفی اور آپ اپنا صلہ بھی ہو سکتی ہے۔ ’’گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی‘‘ سے غالب کا مدعا یہی تھا کہ آپ کون ہوتے ہیں؟ لیکن اس رویے نے انہیں اتنا خود نگر بھی نہیں بنایا کہ اپنی باتیں آپ ہی سمجھیں۔ شاعری میں ذاتی علامتوں اور استعاروں کی صورت گری اور ذاتی معانی کا استخراج اگر اس طرح ہوتا ہے کہ تجربہ ایک ذاتی اکائی کی بھول بھلیوں میں گم ہو جائے تو شاعری مجذوب کی بڑبن جائےگی۔ اظہاریت مشہود پیکروں کو جوں کا توں پیش کرنے کے بجائے انہیں اس صورت میں پیش کرتی ہے جو ان کے حوالے سے شاعر کے ذہن میں ابھرتی ہے لیکن مشہود کی شرط ناگزیر ہے۔اسی لیے کوئسلرتجریدی فن کی اصطلاح کو آپ اپنی تردید کہتا ہے اور اظہار کی کسی بھی شکل کو تجریدی نہیں تسلیم کرتا کیوں کہ تجرید کا اثبات اس شے سے ہوتا ہے جو مجسم ہے اور تجریدی پیکر کا سرچشمہ ہے۔ تجرید کا ہر عمل اپنے انکشاف کے لئے کسی ہیئت کا پابند ہے۔ قاری سے اس کا بنیادی مطالبہ ذاتی ادراک کے تجربے میں اشتراک کا ہے لیکن اشتراک کے لیے ضروری ہے کہ آہنگ یا تاثر کا جادو قاری کے حواس کو فتح کرنے کی قوت رکھتا ہو۔ جذبے کی زبان خاموش بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کے اظہار میں چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ حصہ لیتے ہیں یا لڑکھڑاتی ہوئی زبان کا بے ہنگم ارتعاش۔ اس کی ترسیل اسی صورت میں ممکن ہے جب قاری بہ ظاہر بے معنی ارتعاش کے وسیلے سے اس راہ کو پالے جو متحرک جذبے تک لے جاتی ہو۔عادل منصوری کی نظم اظہاریت کے اسی عمل کا نتیجہ ہے۔ اس نظم میں جو زبان صرف ہوئی ہے وہ نئی لسانی تشکیلات کے بعد بھی شاعری کی زبان کے لیے قطعاً اجنبی ہے۔ آہنگ کی ایک ڈور میں لفظوں کو پرو دیا گیا ہے اور آہنگ کا تاثر عبرانی کے قدیم مذہبی صحائف کی یاد دلاتا ہے۔ نظم کا صرف آخری مصرع شعری لسانیات کی حدوں میں ہے۔ لیکن یہ فیصلہ ابھی قبل ازوقت ہوگا کہ اس نظم کی حیثیت برہمن کی طرح محض تجربے کی ہوگی یا اس کی بنیاد پر شعری اظہار کے کسی نئے امکان کا سراغ مل سکے گا۔ کیا پتہ کہ آنے والا کل ان تجربوں میں نرسری رہائمس کا پراسرار اور لذت آمیز آہنگ اور انوکھے استعجاب سے معمور معصومیت ڈھونڈ نکالے اور اس دریافت کے سہارے شعری عمل کی کسی نایافتہ منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائے۔کبھی کبھی شعر کی تخلیق اور تفہیم کا رشتہ صرف قاری اور شاعر ہی کا نہیں رہ جاتا۔ تیسرا نقطہ وقت بھی بن جاتا ہے اور اس طرح ایک ایسے مثلث کی تکمیل ہوتی ہے جس میں شاعر اور قاری دونوں، زمانے کا عمل اظہار وابلاغ کے مسئلے میں ناگزیر ہو جاتا ہے۔ پرانی شاعری کے بعض نمونے اپنی معنویت کے باوجود موجودہ عہد کے کسی قاری کے نزدیک محض اس لیے بھی مہمل ہو سکتے ہیں کہ وہ ان تہذیبی علامتوں اور فکری دھاروں کا علم نہیں رکھتا جو ان نمونوں کی تشکیل میں دخیل رہے ہیں۔ اس طرح موجودہ عہد کی شاعری کو سمجھنے کے لیے زندگی کے تضادات، پیچیدگیوں اور متعلقات کا علم بھی ضروری ہے۔ جب پرانی شاعری کو سمجھنے کے لیے بعض اوقات اس زمانے کی فکری روایت، تہذیبی رموز اور مروجہ علمی اصطلاحوں کو جاننا ضروری تھا تو آج کی شاعری بھی نئے مسائل کے ادراک اور نئی معلومات سے واقفیت کی شرط قاری پر عائد کر سکتی ہے۔ معنی کی نئی سطحوں تک پہنچنے کے لیے علم اور استعداد کی ناگزیر حدوں تک رسائی پہلے بھی ضروری تھی اور آج بھی ہے۔یہ اعتراض کہ موجودہ عہد کی شاعری اپنی روایت سے الگ ہوکر مغربی روایات کا اثر قبول کرنے کے باعث ناقابل فہم ہے، ذہنی کا ہلی اور معذوریوں کی دلیل ہے۔ اردو کی شعری روایت کا آغاز ہی ایرانی اور عربی تہذیب کی بنیادوں پر ہوا۔ ہماری تہذیبی اور ذہنی زندگی میں مغرب کا عمل دخل بیسویں صدی کے خود سر نوجوانوں کی بے راہ روی کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت اور تہذیبی جبر ہے۔ مولانا حالی کو اسی تصور کی اشاعت کے لیے مقدمہ پیش کرنا پڑا تھا۔ تہذیبی سانحوں اور تبدیلیوں کا اثر ذہن اور فکر کے وسیلے سے زندگی کے تمام شعبوں پر پڑتا ہے چنانچہ معنی اور بیان بھی اس اثر سے آزاد نہیں۔ مولانا محمد حسین آزاد فرماتے ہیں،’’جس طرح قومی بڑھیں، چڑھیں، ڈھلیں اور فنا ہوگئیں، اسی طرح زبان کا عالم ہے کہ اپنے الفاظ کے ساتھ آباد ہے۔ وہ اور اس کے الفاظ پیدا ہوتے ہیں۔ ملک سے ملک سفر کرتے ہیں، حروف وحرکات اور معانی کے تغیر سے وضع بدلتے ہیں، بڑھتے ہیں، چڑھتے ہیں، ڈھلتے ہیں اور مر بھی جاتے ہیں۔‘‘ (سخن دان فارس)معانی کے ایسے پیکر جن کا رشتہ کسی دور کی تہذیب سے گہرا ہواور جس کے بغیر ان کی انفرادیت ختم ہو جائے، بدلی ہوئی تہذیبی زندگی میں زیادہ کارآمد نہیں ہو سکتے۔ موجودہ عہد کی شاعری کا غالب رجحان کسی بھی بندھے ٹکے انسانی یا مابعد الطبعیاتی نظام سے بے تعلقی کا ہے۔ اسی لیے آج کی شاعری، کم وبیش ہر زبان میں، جنوں کی ایک زیریں لہر سے وابستہ ہے جو خرد کی منافقت اور بے حصولی کا ردعمل ہے۔ اس طرز فکر کا اظہار شاعری کی زبان میں تبدیلیوں، پیکروں کو شکست وریخت اور آہنگ کے انوکھے تجربوں سے بھی ہوا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ’’نئے اور عظیم‘‘ موضوعات پیدا ہوں گے تو بنی بنائی زبان کے ڈھانچے کو سخت صدموں سے گزرنا پڑےگا۔ یہ رویہ جسے افتخار جالب لسانی تشکیل کہتے ہیں فکری معروضوں کو زبان میں اس طرح حل کرنے سے عبارت ہے کہ لفظ شیئت حاصل کرلیں۔ یعنی لفظ شے کی علامت محض نہ رہ جائے بلکہ ’’ٹھوس جسمیت‘‘ سے ہم کنار ہو جائے۔ اس طرح لفظ بیان کا جزو ہوکر بھی ایک منفرد کلی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ اس نکتے کی وضاحت افتخار جالب نے منٹو کی کہانی پھند نے اور فیض کی نظم آہستہ (ایک منظر) کے حوالے سے یوں کی ہے کہ اس نظم میں لفظ آہستہ اور منٹو کی کہانی میں کئی الفاظ شیئت کا درجہ پاکر سماعت اور بصارت کی زد میں آ جاتے ہیں۔ مثلاً فیض کی نظم دیکھئے،رہ گزر، سایے، شجر، منزل دور، حلقۂ بامبام پر سینۂ مہتاب کھلا آہستہ،جس طرح کھولے کوئی بند قبا آہستہ،حلقۂ بام تلے سایوں کا ٹھہرا ہوا انیلنیل کی جھیلجھیل میں چپکے سے تیرا کسی پتے کا حبابایک پل تیرا، چلا، ڈوب گیا آہستہ،بہت آہستہ، بہت ہلکا، خنک رنگ شرابمیرے شیشے میں ڈھلا آہستہشیشہ وجام، صراحی، ترے ہاتھوں کے گلابجس طرح دو ر کسی خواب کا نقشدل نے دہرا یا کوئی حرف وفا آہستہتم نے کہا آہستہچاند نے جھک کے کہااور ذرا آہستہیہاں آہستہ کی تکرار نظم کی حرکیت کے دھیمے پن کا صوتی اور بصری ادراک بھی مہیا کرتی ہے۔ الفاظ پر خیال یا جذبے کا دباؤ نہیں۔ ہر لفظ اپنے سے پہلے اور بعد کے لفظ کے آہنگ سے متعین ہوکر خود مختار کل بن جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ آہستگی کے اس پورے عمل کو آگے بڑھاتا ہے جسے اس نظم میں پیش کیا گیا ہے۔ شیئت کے ایک نور دریافت تصور کے باوجود فیض کی یہ نظم شعری ہیئت کا ایسا تجربہ نہیں جو اپنے تاثر میں سمجھ دار قاری کے لیے کوئی پیچیدگی رکھتا ہو۔ وجہ یہ ہے کہ نظم کا کوئی لفظ لسانی تسلسل سے الگ نہیں۔ اس کے برعکس افتخار جالب کی نظم قدیم بنجر جس کے اظہار کے نفسیات کو شاید واضح کرنے کے لیے ’’نفیس لامرکزیت اظہار‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے، اپنی ہیئت کے لحاظ سے عام طور پر ایک عجوبہ یا معما سمجھی جاتی ہے۔’’ماخذ‘‘ کی موجودگی میں یہ کہنا ہٹ دھرمی ہوگی کہ افتخار جالب کا شعری عمل اظہار کے اس خوساختہ اصول سے الگ ہوکر کسی صیغۂ اظہار کے استعمال پر قادر نہیں۔ افتخار جالب کی پیچیدگی اور انوکھے پن کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ اردو کی مروجہ شعری اور لسانی روایت سے الگ ہوکر بھی اپنے اظہار کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ’’نفیس لامرکزیت‘‘ کا آہنگ غم انگیز طنز سے مملو، رواں دواں، درشت اور پرشور ہے اور دیدہ ودل کے صحرا میں امڈتے ہوئے طوفانی بگولوں اور ذہنی تناؤ اور انتشار سے مماثل ہے۔ عطف اور اضافتوں سے حتی الامکان گریز کے باعث اس نظم کی لسانی ہیئت بے مرکز، غیر تدریجی اور ذہنی چھلانگوں سے ہم آہنگ نظر آتی ہے۔ بیشتر الفاظ کلی طور پر خود مختار اکائیوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس طرح لفظوں کی شخصیت اندر سے بھی بدلی ہے اور نئے تلازمات سے لفظوں کے درمیان نئے رشتے قائم ہوئے ہیں۔شاعری کے مروجہ اسالیب کے برعکس اس نظم میں اکثر الفاظ بیان کے تسلسل کا جبر قبول نہیں کرتے اور اپنے ماقبل اور مابعد لفظوں کی روشنی میں واضح ہونے کے بجائے اظہار کی آزادانہ وحدت رکھتے ہیں۔ بیشتر الفاظ کی حیثیت ایک تار میں بندھے ہوئے برقی قمقموں کی ہے جن کی مجموعیت روشنی کا ایک وسیع اور عظیم تاثر پیدا کرتی ہے لیکن یہ قمقمے اپنا منفرد وجود اور پہچان بھی رکھتے ہیں۔ اس نظم میں اظہار کی لامرکزیت، ذہنی اور روحانی لامرکزیت کے تہذیبی المیے کی علامت ہے اور سوچنے کا عمل یکے بعد دیگرے اشارات اور پیکروں یا ان کے حوالے سے مختلف پیکروں کی دریافت کا عمل ہے۔ ایک تہذیبی اکائی کے بکھرنے کا ردعمل جس ذہنی تناؤ اور اعصابی تشنج کو پیدا کرتا ہے اس کی ترسیل کے لیے نظم میں منتشر لفظی اکائیوں کی تنظیم کی گئی ہے۔ ایک اقتباس دیکھئے،نقیب گویائی حرف زبان بالا رادہ سبقت کہ شرف ذومعنی آر تھوپیڈک اتحاد انضمام بے ڈھب بجزکراہت عدم تشدد کہ دانت کھانے کے اورہوتے ہیں، برسرعام لعن طعن؛ اس کے منہ پر تھوکو،نفیس فسق وفجور کی ڈالیوں نے ہیبت سے چمٹے پتوں کا نرم تازہ کلورو فل اس طرح نگلنا شروع کیا ہے؛سفیدمیگنولیائی غنچے دھڑوں پہ دہشت زدہ سراسیمہ بے ارادہ گڑے ہیں؛ دل کومآل کم ترکا پیسپی رس روگ ’گھن سرایت‘ برادہ تجویز ہورہی ہے دبا دیا جائےمزاج کی رونقیں نفاست وسیلے قانون صاف ستھرا رکھیں گے، بنجر قدیم ذرے گلووگفتار میلے کرتےرہے ہیں؛ فٹ پاتھ منضبط شہری زندگی کے علامیے کنکریٹ روشنمبادا تعبیر چھینتے تند تنگ مبحث کا آرتھرائٹس فساد پھٹوں کی اینٹھتلخی دہن مزاکر کراقدامت پسند کا بوس شیشہ درشیشہ شیفتہ دوالہ سیاہ سورج کے عین نیچےگرد باد تکذیب میں امڈکر تباہ ویران ہوتا رہتا ہےگاہے چوراہے میں چکا چوند مندمل زخمخوف ناک گمبھیر چشم بد دور تیرہ مجس حرام مغز امتحان میں ہے۔تجزیے میں صوتی اور لسانی طریق کار سے اکثر مفید نتائج برآمد ہوتے ہیں اور بیشترصورتوں میں اس عمل سے نقصان صرف شاعری کو پہنچتا ہے مثلاً ناسخ کے شعر،اگر ہو پھاہا سمندر یقیں ہو خاک دم میں جل کرکہیں جسے آفتاب محشر کھرنڈ ہے داغ آتشیں کامیں قطع نظر مجموعی آہنگ کی خرابیوں کے کھرنڈ کا لفظ تجربے کے غم انگیز تاثر کو غارت کرکے مضحک بنادیتا ہے لیکن افتخار جالب کی اس نظم کو سمجھنے کے لیے قاری پریہ شرط عائد ہوتی ہے کہ وہ نظم کے مجموعی آہنگ اور الفاظ کے حوالے سے اس طوفان بہ دوش فکر کی نفسیات کو سمجھنے پربھی قادر ہو جس کی بنیاد پر اس نظم کا مرکزی تاثر وجود میں آیا ہے۔ یہاں قاری کو اس راستے سے ابتدا کرنی ہوگی جسے پاؤنڈ Biological Method کہتا ہے اور جسے اس نے (Abc of Reading میں) اگاسی اور مچھلی (Ag assiz And The Fish) کی حکایت سے واضح کیا ہے یعنی پیش پا افتادہ مفروضات اور شعری مسلمات سے آزاد ہوکر نظم کی ہیئت اور آہنگ پر پوری توجہ مرکوز کرنی ہوگی اور ہر لفظ یا پیکر (Slide) کو دوسرے لفظ یا پیکر کے تقابل میں یکے بعد دیگرے سمجھتے ہوئے معافی کی سطحوں تک پہنچنا ہوگا۔ شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ پرانا تہذیبی معاشرہ جس نے اپنے جنسی اور جذباتی تعیش کے لیے منافقانہ کوششوں سے ایک عجیب وغریب ذومعنی اخلاقی ضابطہ تیار کیا تھا، نئی تہذیب کی ملمع کاری اس کی توسیع ہے۔ اس طرح قدامت ’’نئے‘‘ پر مسلط فرسودہ ذہنی نظام اور قوانین کی شکل میں ابھی جذباتی سطح پر زندہ ہے اور ’’حال‘‘ میں ’’ماضی‘‘ کی عیش کوش زندگی گزارنے والے ایک حلقے کی سازش سے نیا معاشرہ آزاد نہیں ہو سکا ہے۔ قدامت پسندی کے سایے نے نئے معاشرے کے دل ودماغ کو اپنے تحفظ کے لیے دبوچ رکھا ہے۔ لیکن نئے زاویہ نظر اور نئی توجیہوں کے باعث اندر ہی اندر کھولتے ہوئے فکری اور جذباتی لاوے سے اندیشہ ہے کہ تہذیبی تصنع اور ملمع کاری یا منافقت کا سارا سحر بکھرنہ جائے اور اس طرح فرسودگی کا نشہ بکھرکر اسے نئی تلخیوں سے بدمزدہ نہ کر دے۔قدیم بنجر کی گرفت نے ’’نئے‘‘ کو تمام ذہنی اور جذبات مراکز سے محروم کرکے ریزہ ریزہ بکھیر دیا ہے۔ جنوں کی قدریں کھوکھلی ہیں اور عقل وعلم کے سورج سیاہ کہ ان کی روشنی باطن کو منور نہیں کرپاتی۔ جھوٹ اور فریب شکستگی کی آندھیوں میں ’’نیا‘‘ اپنا انجر پنجر بھی کھوتا جا رہا ہے۔ سائنسی تہذیب کی چمک دمک ایک لمحے کے لیے اس کی روح کے زخموں کو مندمل کرتی ہے۔ پھر وہی بھیانک ویرانی اور کالی فصلیں اس کے حواس پر حاوی ہو جاتی ہیں۔ گناہوں سے بوجھل گم کردہ راہ ذہن ابھی امتحان میں ہے۔ افتخار جالب کی یہ نظم بھی قاری کو ابلاغ کے امتحان سے دوچار رکھے گی تاوقتیکہ وہ رسمی شاعری کے سحر اور اس کی وجدانی، فکری اور لسانی فضا سے باہر آکر اسے سمجھنے کی کوشش نہ کرے۔ مشاعروں کی روایت، عشقیہ موضوعات کی وبا، ادب کے تفریحی تصور اور اصلاحی وافادی شاعری کے غلغلے نے اردو کی شعری روایت کے بیشتر حصے اور قارئین کی اکثریت کو اوسطیت کے ایسے مرض میں مبتلا کیا ہے جسے تسلیم کرنے میں قاری اپنی ذہنی صحت کی توہین سمجھتا ہے۔تخلیقی عمل بعض اوقات معجزہ کار بھی ہوتا ہے لیکن مجھے شک ہے کہ مناسب ذہنی تربیت، علمی پس منظر اور اعلا تفکر کی قوتوں کے بغیر بھیغیر معمولی شاعری ہو سکتی ہے۔ (یہاں اچھی لیکن معمولی اور غیر معمولی کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ ) اسی طرح اعلا یاغیر رسمی شاعری کی تفہیم کے تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ دشواری یہ ہے کہ معمولی تعلیم سے بہرہ ور شاعر بھی یہ ماننے پر تیار نہ ہوگا کہ سمجھ میں نہ آنے والی شاعری یا فنی اظہار کی نئی ہیئتیں اس کی ذہنی دست رس سے دور بھی ہو سکتی ہیں اور لطیفہ یہ ہے کہ وہی قاری اس اعتراف میں نہیں جھجکتا کہ تیسرے درجے کی ایک مشین کا عمل اس کی سمجھ سے باہر ہے۔ یہاں وہ مشین کو قصوروار نہیں ٹھہراتا۔فرانس کے جو شعرا اعلاشاعری کو حماقت سے ہم رشتہ قرار دیتے تھے، غیرمعمولی ذہانت اور علم رکھنے والے لوگ تھے اور ان کی ذہانت حماقت کی طرح انوکھی اور منفرد تھی۔ ان کے نزدیک حماقت علم کے بے روح منطقی استدلال کے خلاف جذبات احتجاج کی علامت تھی۔ چنانچہ شاعر ہو یا قاری، دونوں کے لیے اس تصور کی بنیاد پر حماقت کو ایک مسلک سمجھ بیٹھنا ہلاکت خیز ہوگا۔ لا یعنیت (Absurdity) اور ذہنی انتشار و انجماد (Confusion) کی بنیاد پر کسی مرتب نظریے (مثلاً زین بدھ ازم یا دادا ازم) کی تشکیل غوروفکر، علم وادراک اور سوجھ بوجھ کی اعلاقوتوں کے بغیر آج تک نہیں ہوئی۔جو قاری پرانی شاعری کے اعلا نمونوں کو سمجھنے کا دعویٰ کرتا ہے (ضروری نہیں کہ دعویٰ صحیح ہو) اور موجودہ عہد کی شاعری (بالخصوص نظمیہ) کو ناقابل فہم یا بے معنی قرار دیتا ہے، اکثر بعض بنیادی حقائق کو فراموش کر دیتا ہے۔ ان حقائق کا تعلق شاعری کے اسالیب سے ہے۔ نئی نظم کی ہیئتیں بدل گئی ہیں۔ غزل کی روایت مستحکم ہے، اس لئے نئی غزل تبدیلیوں کے باوجود اپنی روایت کے سحر اور جبر سے نکل نہیں سکی۔ نظم اس مجبوری سے دوچار نہیں ہے۔ نئی شاعری کے آغاز سے پہلے اردو میں نظم کے جواسالیب رائج تھے ان میں ایک تو غیر متعین یا منتشر اسلوب تھا، جس میں بند یا مصرعے شعری تجربے کی توسیع کے بجائے ایک ہی مرکز پر موضوع کے حوالے سے ایک دوسرے میں جڑے ہوتے تھے۔ دوسرا طریقہ مسلسل بیان کا تھا۔ تیسرے کی بنیاد منطقی تدریج پر بھی۔ یعنی ہر بند یا مصرعہ اپنے ماقبل کی منطقی توسیع کرتا ہوا موضوع کو منزل بہ منزل واضح کرتا جاتا تھا۔ نئی نظم کے فارم پر پچھلے صفحات میں کافی بحثیں ہو چکی ہیں۔ یہاں دہرانا فضول ہوگا۔پرانی شاعرانہ لغت کو رد کرکے نئی لسانی تشکیل نے نئی نظم میں زبان کی نئی ہیئتیں بھی پیش کی ہیں۔ اگر پرانے اسالیب سے ذہنی اور جذباتی ہم آہنگی کے باعث قاری صرف انہیں کو سمجھنے کی عادت رکھتا ہے تو اظہار کی نئی شکلیں اور تخلیقی انفرادیت کے نئے تجربے اس کے لیے لازماً دشوار ہوں گے۔ ’’نفیس لا مرکزیت اظہار‘‘ یا ہیئتی اور لسانی اعتبار سے اس جیسی دوسری نظموں پر یہ اعتراض بھی عائد ہو سکتا ہے کہ انہیں سمجھنے کے لیے اگر ایک ایک لفظ میں اتنی دشواری کے ساتھ معنی تلا ش کئے جائیں تو کیا نظم قاری کو جمالیاتی تجربہ یا فنی تاثر بخشنے میں کامیاب ہو سکےگی۔ یہ مسئلہ یا ایسے تجربوں کی قدروقیمت کا تعین اس مضمون کے دائرے سے الگ ہے۔ یہاں تجزیاتی عمل کی ان جہتوں پر بحث کی گئی ہے جن سے بہ ظاہر’’مہمل‘‘ نظر آنے والے تجربے بھی معانی کی ترسیل کر سکتے ہیں۔جمالیاتی تجربہ بھی ایک اضافی اصطلاح ہے چنانچہ کپلر سے آئن سٹائن تک علوم ریاضی کے ماہرین ریاضی کے مسائل کو حل کرنا بھی ایک جمالیاتی تجربہ سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ جب ایسے شعری تجربے، تجزیے کی عادتیت کا جزو بن جائے تو تفہیم کا دقت طلب عمل سہل ہو جائے اور ایسے تجربوں سے مانوس ہونے کے بعد قاری کے لیے ذہنی سفر کی دشواریاں اور طوالت مختصر ہوتے ہوتے معدوم ہو جائیں۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ذہنی قناعت، قدامت کے جبر کی وجہ سے سرمیں گھومنے والی یا پسندیدہ قدروں کی تراشیدہ بتوں کی پرستش قاری کو اپنی دنیا میں مگن رکھتی ہے۔ باہر آنے سے وہ ڈرتا ہے کہ کہیں نئے تجربوں کی زد میں اس کے جذباتی سہارے اور بت ٹوٹ نہ جائیں اور جانے بوجھے راستوں سے نکل کر اسے ایک لازوال خلا میں بھٹکنا نہ پڑے۔ لیکن بدعت کا مفہوم مذہبی عقائد میں کچھ بھی ہو ادب میں تجربوں کا عمل بدعتوں کے بغیر نہیں ہوتا۔ تجربوں سے انکار کرکے قاری اپنی بنی بنائی شخصیت کا تحفظ کرتا ہے۔ نئے معانی کی دریافت، حقائق کے نئے انکشاف اور نئے حسی اور وجدانی تجربے قاری کو مطبوع تصورات کی نفی اور ذہنی روایت کے کچھ حصوں کی تردید پر بھی مجبور کر سکتے ہیں۔ احساس زیاں کا اندیشہ اسے نئے تجربوں کے حصول کی طرف بڑھنے ہی نہیں دیتا۔ اس کی جذباتی وابستگی اور خوف اسے یہ بھی نہیں سمجھنے دیتا کہ تجربے تاریخ و تہذیب کے فطری سفر کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اگر ایسے قاری کے لیے نئی نظم معما ہے تو نئی نظم کے لیے بھی ایساقاری ’’حس وخبر سے عاری‘‘ وہ آئینہ ہے جس کے ’’نابود کو ہست‘‘ بنانا شاعر کا نہیں خود قاری کا کام ہے۔ میرا جی کا ایک مصرعہ ہے، بربریت کو اک نیلا بھید بنایا کس نے؟ دوری نے۔ انسان بجائے خود ایک بھید ہے اسی لیے شاعری بھی کبھی کبھی بھول بھلیاں بن جاتی ہے۔ تخلیقی عمل کے بھید کو پانے کے لیے قاری کو ذہنی، لسانی اور وجدانی سطح پر شعری اظہار اور اپنے مابین دوریوں کو مٹانا پڑےگا۔ بہ صورت دیگر زندگی کا ایک اصول بہت واضح اور ابہام سے خالی ہے کہ دنیا کی ہر بات ہر شخص کے لیے نہیں ہوتی۔حاشیے(۱) یہ حسین کھیت پھٹ پڑتا ہے جوبن جن کا   کس لیے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے(۲) چاند کو چھو جانے کا قصہ پھول پی جانے کی بات   ہر سہانی آرزو اب تک ہے دیوانے کی بات(۳) پھر نظر میں پھول مہکے دل میں پھر شمعیں جلیں   پھر تصور نے لیا اس بزم میں جانے کا نام(۴) ہمارے پاس سے گزری تھی ایک پرچھائیں   پکارا ہم نے تو صدیوں کا فاصلہ دیکھا(۵) عہد رفتہ کے پر اسرار گھنے جنگل میں   پھونک کر سحر بنا دیتی ہیں پتھر یادیں(۶) چٹانوں کی قید سے دریا اوب گئے   گاؤں ’جزیرے‘ شہر بہے جاتے ہیں(۷) بھاگی چلی آ رہی ہے دیکھو تو   بستی ہے شکار شام چیتا ہے(۸) دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی   دونوں کو اک ادا میں رضامند کرگئی(۹) وہ لالہ رو گیا نہ ہو گل گشت باغ کو   کچھ رنگ بوئے گل کے عوض ہے صبا کے ساتھ(۱۰) سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا   کھڑکی کے پردے کھینچ دیے رات ہو گئی(۱۱) گل دان میں گلاب کی کلیاں مہک اٹھیں   کرسی نے اس کو دیکھ کے آغوش وا کیا(۱۲) نظم اس طرح ہے   برہمن چھن چھنچھن چھن چھن چھنچھن چھن۔ چھن۔ چھن۔ چھنچھن چھن چھن چھن چھن چھن چھن (ادب لطیف، جون ۱۹۴۸ء)(۱۳) عادل منصوری کی نظم یوں ہے،یہودیو کان یوس یکرش یہودو کان یوس یکرش نیا ح نوشہ تمام نملہ یساق یغما یلم یلملم مآل ماسخ مناب مبنی ہمیغ ہمدہ ہمز ہمانا لبان لبنان لبس لاہوت ہماس ہم خواب ہاتھ آئے لبیق لبیک لت لجاجت درید درنج وحید واقد لہو سے اٹھتا دھواں تو دیکھو (تحریک ستمبر ۱۹۶۸ء) (۱۴) دوجملے مثال کے طور پر یہ ہیں،اس کا باپ یوڈی کلون میں تھا جہاں اس کا ہوٹل اس کی لیڈی اسٹنو گرافر کا سر سہلاتا تھا۔ اس کی ممی دوسرے کمرے میں تھی۔ ڈرائیور اس کے بدن سے موبل آئل پونچھ رہا تھا۔