اہلِ فاٹا کا درد کیا ہے؟
سابقہ فاٹا، جو دو ہزار اٹھارہ میں آئین میں پچیسویں ترمیم کے بعد باقاعدہ ریاست پاکستان کا حصہ بن گیاہے، پچھلی کئی دہائیوں سے ایسے گرداب میں پھنسا ہے کہ نکالے نہیں نکلتا۔
آپ روز اخبارات میں سنتے اور پڑھتے ہیں کہ سکیورٹی فورسز کی کاروائی سے اتنے دہشت گرد مارے گئے یا اس کے برعکس اتنے دہشت گردوں نے سکیورٹی فورسز پر حملہ کر دیا۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے ان سب چیزوں کی وجہ سے وہاں کے عوام کن حالات میں جی رہےہیں؟ ایک مشہور اسکالر اور سابقہ برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر اکبر صلاح الدین احمد کے الفاظ میں یہاں کا ہر دن نائن الیون ہوتا ہے۔ کیونکہ یہاں امریکی ڈرون ،شہریوں کے پرخچے اڑاتے ہیں، آپریشن المیزان سے لے کر ضرب عضب تک پاکستانی افواج یہاں ایف سکسٹین سے لے کر جے ایف سیونٹین تھنڈر تک آزماتی رہی ہیں، ٹی ٹی پی، ایسٹ ترکستان موومنٹ، تحریک نفاذ شریعت محمدی جیسی تنظیمیں یہاں قتل و غارت کرتی رہی ہیں اور ان کے آپسی قبائلی جنگ و جدل بھی چھڑتے رہے ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں ان سب عوامل کی وجہ سے یہاں کی عام عوام، جو کہ ہم آپ جیسے بچے ہیں، نوجوان ہیں، عورتیں ہیں اور بوڑھے ہیں سرخ آندھی تلے سانس لیتے رہیں ہیں۔ ان کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ان کا کوئی پیارا یا وہ خود کب کس یڈرون کا لقمہ بنے، کب فورسز کی بمباری انہیں نگل جائے، کب انتہا پسند انکا خون پی لیں یا کب کوئی قبائلی تصادم ان کی جان مانگ لے۔ خیر اب ضرور میڈیا رپورٹس اور آئی ایس ایس پی آر یہاں امن کی نشان دہی کرتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جیسا بتایا جا رہا ہے حقیقت بھی ایسی ہی ہو۔ یہاں کے لوگوں کو امن و امان والی زندگی مل رہی ہو۔ ہمارا آج کا موضو ع یہ نہیں۔ بلکہ ہم تو صرف ان تکالیف کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جن سے یہاں کے عام عوام گزر رہے ہیں ۔ میڈیا اور طاقت کے ایوانوں میں ان تکالیف کے مداوے سے متعلق بہت ہی کم مباحث دیکھنے کو ملتے ہیں۔
فاٹا کا علاقہ در اصل پاکستان کے شمال مغرب میں 27,200 کلومیٹر پر پھیلا سات قبائلی علاقوں جنہیں ایجنسیز بھی کہتے ہیں اور چھے فرنٹیئر ریجنزپر مشتمل رقبہ ہے۔ فاٹا کی سات ایجنسیز پشاور کے شمال میں باجوڑ سے شروع ہوتی ہیں، پھر مہمند، خیبر، اورک زئی، پھر کرم، پھر شمالی وزیرستان اور پھر جنوب میں بلوچستان کے ساتھ جنوبی وزیرستان آتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم فاٹا کے فرنٹیر ریجنز کو دیکھیں تو شمال میں پشاور، پھر کوہاٹ، بنوں،لکی مروت، ، ٹینک اور پھر ڈیرہ اسماعیل خان آتا ہے۔ یہ تمام علاقے سخت اونچے نیچے پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہیں، جو کہ انکو گوریلا جنگی انداز کی چھاپہ مار کاروائیوں کےلیے مناسب علاقہ بناتے ہیں۔ ان علاقوں میں بیشتر جفا کش مسعود اور وزیر قبائل آباد ہیں، جن کے خون کی بوند بوند میں آزادی، حریت اور جنگ و جدل بسا ہے۔
پچیسویں آئینی ترمیم سے قبل فاٹا کا قبائلی علاقہ براہ راست ریاست پاکستان کے اندر نہیں آتا تھا بلکہ انیس سو ایک کے فرنٹیر ریگولیٹری ایکٹ کے تحت کنٹرول کیا جاتا تھا۔ اس کے مطابق حکومت وقت پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے انتظامی امور یعنی سڑکیں بنانا، تعلیم و صحت کی سہولیات میسر کرنا وغیرہ تو سر انجام دے سکتی تھی لیکن قبائل کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی تھی۔ لیکن اب یہ باقاعدہ طور پر صوبہ خیبر پختون خوا کا حصہ بن چکا ہے۔
آئیے اب ان تکالیف کا ذکر کرتے ہیں جن سے یہ قبائلی لوگ دو چار ہیں۔
اس میں سب سے پہلے ذکر ہے تعلیم و صحت کی سہولیات کی کمی کا۔ ان قبائلی علاقوں میں پاکستان کے دوسرے علاقوں کی نسبت بہت ہی کم صحت و تعلیم کے ادارے ہیں۔ اور جو ہیں وہ بری طرح وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔
دوسری ان علاقوں کی تکلیف روزگار کی کمی ہے جس کے باعث ان علاقوں کے بیشتر نو جوان بے روزگار ہیں یا بڑے شہروں میں آ کر بہت ہی معمولی نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔
تیسرا ان علاقوں میں بہت زیادہ جنگ کی وجہ سے نفسیاتی امراض کا مسئلہ ہے۔ بہت سے نفسیاتی ماہرین بار بار ان لوگوں، خصوصاً خواتین کے ذہنی مسائل کی نشان دہی کر رہے ہیں۔
چوتھا ان علاقوں میں بیشتر مکانات اور بازار تباہ ہو چکے ہیں۔ بہت سے لوگ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔ یہ مکانات زیادہ تر افواج اور دہشت گردوں کے تصادم کے نتیجے میں تباہوئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت ایسے گھر جو پوری طرح تباہ ہو چکے، ان کی تعمیر کے لیے چار لاکھ روپے اور جو جزوی طور پر تباہ ہوئے ان کی تعمیر کے لیے ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے دے رہی ہے۔ لیکن میں اور آپ جانتے ہیں کہ یہ اونٹ کے منہ میں ذیرے کے برابر ہے۔ حکومت کو اس سے بڑھ کر بہت کچھ کرنا ہوگا۔
پانچواں یہ کہ جب فاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم کیا گیا تھا تو اسے سالانہ سو ارب روپے سمیت بہت سی مراعات دینے کا وعدہ ہوا تھا۔ اسی طرح اسے صوبوں کے این ایف سی ایوارڈ میں سے بھی تین فیصد دینے کا بھی اعلان ہوا تھا لیکن کل انتیس ستمبر دو ہزار اکیس کے ڈان اخبار میں ان وعدوں کی بے وفائی کا تفصیلاً ذکر ہوا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ اوپر بیان کردہ تکالیف ان تکالیف سے بہت ہی کم ہیں جن سے قبائلی عوام گزر رہے ہیں۔ انہیں ہماری ضرورت ہے۔ وہ ہمارا حصہ ہیں ۔ ان پر طویل عرصہ ظلم ہوا ہے۔ ہمیں اپنی تعصبات کی عینکیں اتار کر صرف انسانیت کی عینک سے انہیں دیکھنا ہوگا۔ صرف اسی طرح ہم ان کی حقیقی تکالیف کا ادراک کر سکیں گے۔