ممی: اہلِ مصر لاش کو کس طرح حنوط کرتے تھے؟
کیا آپ نے ممی (mummy) فلم دیکھی ہے؟ جس کی کہانی حنوط کی گئی لاشوں کے بارے میں ہے۔کیا آپ جانتے ہیں کہ لاشوں کو حنوط کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اور اہل مصر لاش کو کیسے حنوط کرتے تھے؟ لاش کو کتنے عرصے تک حنوط کیا جاسکتا ہے؟ یہ سب جانیے اس معلوماتی اور دل چسپ تحریر میں
حنوط شدہ لاش یا ممی سے کیا مراد ہے؟
ممی (mummy)یا حنوط شدہ لاش (mummified body) ، دراصل ایک ایسی لاش ہوتی ہے جسے خشک کر نے کے بعد خاص طرح کے مادوں میں لپیٹ دیا جاتا تھا تاکہ وہ ہزاروں سال تک اپنی اصل حالت میں بر قرار رہے۔ قدیم مصری زندگی سے پیار کرتے تھے اور لافانی ہونے پر یقین رکھتے تھے۔ان کا عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد لوگ ایک اور دنیا کی طرف سفر کرتے ہیں جہاں انھیں اپنے جسموں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لئے وہ نہیں چاہتے تھے کہ جسم کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع یا خراب ہو۔
مصریوں کا خیال تھا کہ حنوط شدہ جسم میں روح موجود رہتی ہے۔ اگر جسم تباہ ہو گیا تو روح ضائع ہو سکتی ہے اور بعد کی زندگی میں داخل نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ قبر کی تیاری مصری معاشرے میں ایک اہم رسم تھی۔ مزید یہ کہ لاش کے ساتھ ان چیزوں کا بندو بست کرنا بھی شامل تھا جن کی ضرورت بعد کی زندگی میں ہو سکتی ہے، جیسے فرنیچر، کپڑے، خوراک اور قیمتی چیزیں وغیرہ۔
لاش حنوط کرنے کی تاریخ
اگرچہ ممی بنانے کا رواج مصر میں 2600 قبل مسیح کے آس پاس شروع ہوا تھا، لیکن ابتدائی طور پر صرف فرعون (مصر کے بادشاہ اور دیگر شاہی افراد )ہی اس عمل کے حقدار ہوتے تھے۔ یہ رویے 2000 قبل مسیح میں آہستہ آہستہ تبدیل ہوئےاور عام لوگوں کے جسم کو بھی ممی بنانے کی اجازت دے دی گئی تاہم اس میں ایک امتیاز برقرار رکھا گیا کہ شاہی افراد کی ممی زیادہ شاندار اور خصوصی طور پر تیار کی جاتی تھی۔ تاہم چونکہ یہ ایک مہنگا عمل تھا ، اس لئے عام طور پر صرف امیر لوگ ہی اپنے عزیزوں کو دنیا سے اس طرح رخصت کرنے کا خرچہ برداشت کر سکتے تھے۔
چوتھی صدی عیسوی کے آس پاس مصریوں کا لاشیں حنوط کرنے کا فن اس وقت متروک ہونے لگا ، جب روم نے مصر پر قبضہ کیا اور وہاں عیسائیت کا غلبہ ہو گیا۔
ممی کیسے تیار کی جاتی تھی؟
حنوط کے ماہرین سب سے پہلے مرنے والے شخص کے جسم کی اندرونی آلائشیں نکالتے تھے۔ پھر اس لاش کو ایک خاص طرح کا نمکیاتی مواد "خام شورہ" (natron) لگا کر 40 دن تک خشک کرتے تھے۔ پھر اسے دھو کر اس پر خاص قسم کا مرہم لگایا جاتا اور اس پر مضبوطی سے پٹیاں باندھ دی جاتی تھیں۔ پٹیاں باندھنے میں حکمت یہ تھی کہ ان سے جسم کی بناوٹ قائم رہتی تھی۔
مصری، حنوط شدہ لاش کو لکڑی کے تابوت میں رکھتے تھے۔ پھر اسے پتھر کے ایک صندوق میں رکھتے ، جسے "سارکو فیگس" (Sarcophagus) کہا جاتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف انسانوں کی ہی نہیں بلکہ بندروں، مگر مھوں، بلیوں اور دیگر جانوروں کی لاشیں بھی حنوط کی جاتی تھیں۔
آپ کو ایک دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ بھی بتاتے چلیں کہ قدیم مصری لوگوں کے نزدیک مغز ایک بے کار چیز تھا۔ لہٰذا وہ لاش کو حنوط کرتے وقت مغز کو ناک کے راستے کھینچ کر نکال دیتے تھے۔ قدیم مصریوں کے مطابق، پورے جسم میں سب سے اہم حصہ دل ہوتا تھا۔