منتظر سایۂ منتظر آنکھیں
غیرت ہے کہ حیا
نام اس کا نہ لیا جس کو پکارا اس نے
اس گئی رات کے سناٹے میں کون آیا ہے
بند دروازے کے مجس میں تو سیتا ہی ہے
اور باہر
کوئی راون تو نہیں
کون ہے کون کی سہمی سی صدا
وہ بھی کچھ کہہ نہ سکا میں کے سوا
دستکیں رام کے مخصوص زباں رکھتی ہیں
گوش سیتا کے لیے مژدۂ جاں رکھتی ہیں
بلب روشن ہوا اور چاپ قدم کی ابھری
چوڑیاں بول اٹھیں
انگلیاں کاٹھ کی مضراب پہ پھر رینگ گئیں
دونوں پٹ خواب سے چونکے تو معاً چیخ اٹھے
ایک ہنگامہ ہوا رات کا افسوں ٹوٹا
منتظر سایۂ خجالت کے دھواں سے ابھرا
رات کافی ہوئی تم جاگ رہی ہو اب تک
آج پھر دیر ہوئی
اصل میں آج عجب بات ہوئی
ٹھیک ہے ٹھیک کوئی بات نہیں
منتظر شاخ جو لچکی تو کئی پھول جھڑے
آپ منہ ہاتھ تو دھو لیں پہلے
اور منٹو میں میں سال کو ذرا گرم کروں
پیار کی آگ بھی روشن ہوئی اسٹو کے ساتھ
دشت تنہائی کے عفریت بہت دور ہوئے
وسوسے جتنے تھے دل میں سبھی کافور ہوئے
حرکت اور حرارت میں مگن دونوں بدن
یہ کرایہ کا مکاں ہے کہ محبت کا چمن
ایک ایک لقمہ پہ ہوتی ہیں نگاہیں دو چار
ایک ایک جرعے میں محلول تبسم کی بہار
مضطرب دل میں منور ہیں مسرت کے چراغ
جانی پہچانی سی خوشبو میں ہے مسحور دماغ
آنکھوں آنکھوں میں سیہ رات کٹے گی اب تو
ہونٹ سے ہونٹ کی سوغات بٹے گی اب تو