دور سے ہی بس دریا دریا لگتا ہے

دور سے ہی بس دریا دریا لگتا ہے
ڈوب کے دیکھو کتنا پیاسا لگتا ہے


تنہا ہو تو گھبرایا سا لگتا ہے
بھیڑ میں اس کو دیکھ کے اچھا لگتا ہے


آج یہ ہے کل اور یہاں ہوگا کوئی
سوچو تو سب کھیل تماشا لگتا ہے


میں ہی نہ مانوں میرے بکھرنے میں ورنہ
دنیا بھر کو ہاتھ تمہارا لگتا ہے


ذہن سے کاغذ پر تصویر اترتے ہی
ایک مصور کتنا اکیلا لگتا ہے


پیار کے اس نشہ کو کوئی کیا سمجھے
ٹھوکر میں جب سارا زمانہ لگتا ہے


بھیڑ میں رہ کر اپنا بھی کب رہ پاتا
چاند اکیلا ہے تو سب کا لگتا ہے


شاخ پہ بیٹھی بھولی بھالی اک چڑیا
کیا جانے اس پر بھی نشانہ لگتا ہے