دور اور پاس کے ستائے ہیں

دور اور پاس کے ستائے ہیں
ہم نے ہجرت کے دکھ اٹھائے ہیں


جانے کس پار جا کے اتریں گے
خواب کے جو بھی در بنائے ہیں


اپنی مٹی سے دور ہو کر ہی
ہجر کے دکھ سمجھ میں آئے ہیں


ان کے آنے سے گلستانوں نے
خوشبوؤں کے کنول کھلائے ہیں


منزلوں کو پتہ نہیں ہم نے
راستوں کے فریب کھائے ہیں


کسی پہلو قرار آیا نہیں
دل نے قصے بہت سنائے ہیں


ہم کو عاشقؔ خبر نہیں اس کی
تیر اپنوں نے کب چلائے ہیں