دشمن اپنا بھی نہیں کوئی فسادی بھی نہیں

دشمن اپنا بھی نہیں کوئی فسادی بھی نہیں
بات ادھر کی میں ادھر کرنے کا عادی بھی نہیں


تجھ کو دیکھا گیا اور دیر تلک پرکھا گیا
ہجر کا فیصلہ کچھ غیر ارادی بھی نہیں


مرگ احساس پہ اس درجہ خموشی دنیا
کوئی اعلان نہیں کوئی منادی بھی نہیں


میں اسے ذہن میں ہر وقت لیے پھرتا رہا
جس نے پہلو میں مجھے اپنے جگہ دی بھی نہیں


اس کی تصویر بناتا رہا جدول کی بجائے
اور اس بار تو میڈم نے سزا دی بھی نہیں


یہ الگ بات مرا مسئلہ مادہ ہے مگر
دیکھا جائے تو مرا مسئلہ مادی بھی نہیں