دنیا سے تن کو ڈھانپ قیامت سے جان کو
دنیا سے تن کو ڈھانپ قیامت سے جان کو
دو چادریں بہت ہیں تری آن بان کو
اک میں ہی رہ گیا ہوں کیے سر کو بار دوش
کیا پوچھتے ہو بھائی مرے خاندان کو
جس دن سے اپنے چاک گریباں کا شور ہے
تالے لگا گئے ہیں رفوگر دکان کو
فی الحال دل پہ دل تو لیے جا رہے ہو تم
اور جو حساب بھول گیا کل کلان کو
دل میں سے چن کے ہم بھی کوئی غنچہ اے نسیم
بھیجیں گے تیرے ہاتھ کبھی گلستان کو
مشغول ہیں صفائی و توسیع دل میں ہم
تنگی نہ اس مکان میں ہو میہمان کو