دنیائے فکر نو کا تمنائی بن گیا

دنیائے فکر نو کا تمنائی بن گیا
ہر آدمی حیات کا شیدائی بن گیا


جب سے دل ان کی زلف کا سودائی بن گیا
میرے لیے وہ باعث رسوائی بن گیا


وہ دل جو اپنے آپ سے بیگانہ ہو گیا
سچ تو یہ ہے کہ مرکز دانائی بن گیا


طوفان غم سے کھیلے گا وہ کس طرح بھلا
ساحل پہ بیٹھ کر جو تماشائی بن گیا


اس غم پہ ہوں نثار ہزاروں مسرتیں
وہ غم جو وجہ صبر و شکیبائی بن گیا


میری نگاہ فکر کے سانچے میں ڈھل گئی
میرا نفس شعور کی گہرائی بن گیا


میرا خیال کم نہیں تیرے جمال سے
میرا خیال بھی تری انگڑائی بن گیا


میرا خلوص میرا عمل تیرے عشق میں
دوشیزۂ حیات کی رعنائی بن گیا


وہ اضطراب شوق جسے زندگی کہیں
دل کا سکوں نظر کا توانائی بن گیا


کیوں کر نہ ہو کمال کا جوہر لئے ہوئے
آئینہ تیرے حسن کی یکتائی بن گیا


جو مجھ کو میری خلوت غم سے ملا نگارؔ
وہ خواب روح انجمن آرائی بن گیا