دلیر ترین جاسوس
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی للہ عنہ نے 7 افراد لشکرِ فارس کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کے لیے بھیجے اور انھیں حکم دیا کہ اگر ممکن ہو سکے تو اس لشکر کے ایک آدمی کو گرفتار کر کے لے آئیں۔۔۔!!
یہ ساتوں آدمی ابھی نکلے ہی تھے کہ اچانک انھوں نے دشمن کے لشکر کو سامنے پایا۔
جبکہ ان کا گمان یہ تھا کہ لشکر ابھی دور ہے۔ انھوں نے آپس میں مشورہ کر کے واپس پلٹنے کا فیصلہ کیا۔ مگر ان میں سے ایک آدمی نے امیر لشکرسیدنا سعد کی جانب سے ذمہ لگائی گئی مہم کو سرانجام دئیے بغیر واپس لوٹنے سے انکار کر دیا اور یہ چھ افراد مسلمانوں کے لشکر کی جانب واپس لوٹ آئے۔
جبکہ ہمارے یہ تنہا بطل اپنی مہم کی ادائیگی کے لیے فارسیوں کے لشکر کی جانب تنہا بڑھتے چلے گئے!! انھوں نے لشکر کے گرد ایک چکر لگایا اور اندر داخل ہونے کے لیے پانی کے نالوں کا انتخاب کیا اورا س میں سے گزرتے ہوئے فارسی لشکر کے ہراول دستوں تک جاپہنچے، جو کہ 40 ہزار لڑاکوں پر مشتمل تھے!!
پھروہاں سے لشکر کے قلب سے گذرتے ہوئے ا یک سفید خیمے کے سامنے جاپہنچے، جس کے سامنے ایک بہترین گھوڑا بندھا کھڑا تھا۔ انھوں نے جان لیا کہ یہ دشمن کے سپہ سالاررستم کا خیمہ ہے!! چنانچہ یہ اپنی جگہ پر انتظار کرتے رہے، یہاں تک کہ رات گہری ہو گئی ، رات کا کافی حصہ چھا جانے پر یہ خیمہ کی جانب گئے، اور تلوار کے ذریعے خیمہ کی رسیوں کو کاٹ ڈالا ، جس کی وجہ سے خیمہ رستم اور خیمہ میں موجود افراد پر گر پڑا ، گھوڑے کی رسی کاٹی اور گھوڑے پر سوار ہو کر نکل پڑے۔
اس سے ان کا مقصد فارسیوں کی تضحیک اور ان کے دلوں میں رعب پیدا کرنا تھا!! گھوڑا لے کر جب فرار ہوئے تو گھڑسوار دستے نے ان کا پیچھا کیا۔
جب یہ دستہ قریب آتا تو یہ گھوڑے کو ایڑ لگا دیتے اور جب دور ہو جاتا تو اپنی رفتار کم کر لیتے تاکہ وہ ان کے ساتھ آملیں ، کیوں کہ وہ چاہتے تھے کہ ان میں سے ایک کو دھوکے سے کھینچ کرسعد رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے حکم کے مطابق لے جائے!!
چنانچہ 3 سواروں کے علاوہ کوئی بھی ان کا پیچھا نہ کر سکا ۔۔ انھوں نے ان میں سے دو کو قتل کیا اور تیسرے کو گرفتار کرلیا۔۔۔! یہ سب کچھ تن تنہا انجام دیا!! قیدی کو پکڑا ، نیزہ اس کی پیٹھ کے ساتھ لگایا ، اور اسے اپنے آگے ہانکتے ہوئے مسلمانوں کے معسکر جا پہنچے اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا۔ فارسی کہنے لگا: مجھے جان کی امان دو، میں تم سے سچ بولوں گا۔ سعدرضی اللہ عنہ کہنے لگے: تجھے امان دی جاتی ہے اور ہم وعدے کی پاسداری کرنے والی قوم ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ہمارے ساتھ جھوٹ مت بولنا۔۔ پھرسعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمیں اپنی فوج کے بارے میں بتاؤ ۔۔فارسی انتہائی دہشت ناک اور ہذیان کی کیفیت میں کہنے لگا :اپنے لشکر کے بارے میں بتانے سے قبل میں تمہیں تمہارے آدمی کے بارے میں بتلاتاہوں !!!! کہنے لگا :
"یہ آدمی، ہم نے اس جیسا شخص آج تک نہیں دیکھا ، میں ہوش سنبھالتے ہی جنگوں میں پلا بڑھا ہوں ، اس آدمی نے دو فوجی چھاؤنیوں کو عبور کیا ، جنہیں بڑی فوج بھی عبور نہ کر سکتی تھی، پھر سالار لشکر کا خیمہ کاٹا ، اس کا گھوڑا بھگا کر لے اڑا ، گھڑ سوار دستے نے اس کا پیچھا کیا ، جن میں سے محض 3 ہی اس کی گرد کو پا سکے ، ان میں سے ایک مارا گیا ۔جسے ہم ایک ہزار کے برابر سمجھتے تھے ، پھر دوسرا مارا گیا جو ہمارے نزدیک ایک ہزار افراد کے برابر تھا ، اور دونوں میرے چچا کے بیٹے تھے۔ میں نے اس کا پیچھا جاری رکھا اوران دونوں مقتولین کے انتقام کی آگ سے میرا سینہ دھک رہا تھا ، میرے علم میں فارس کا کوئی ایسا شخص نہیں جو قوت میں میرا مقابلہ کر سکے اور جب میں اس سے ٹکرایا تو موت کو اپنے سر پر منڈلاتے پایا، چنانچہ میں نے امان طلب کر کے قیدی بننا قبول کر لیا۔اگر تمہارے پاس اس جیسے اور افراد ہیں تو تمہیں کوئی ہزیمت سے دوچار نہیں کر سکتا!!!"
پھر اس فارسی نے اسلام قبول کر لیا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ عظیم بطل کون تھے؟ جنہوں نے لشکر فارس کو دہشت زدہ کیا ، ان کے سالار کو رسوا کیا اور ان کی صفوں میں نقب لگا کر واپس آگئے۔ یہ طلیحہ بن خویلد الاسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔