دعا

یہ جبر ماہ و سال میں گھری ہوئی زمیں مری گواہ ہے
نشاط کی ابد کنار منزلوں میں ایک عمر سے میں ان کریم اور جمیل ساعتوں کا منتظر ہوں
جن کی بازگشت سے مرے وجود کی صداقتوں کا انکشاف ہو
خدا کرے بشارتیں سنانے والے خوش کلام طائروں کی ٹولیاں
افق سے شاخ گل تلک علامت وصال کی لکیریں کھینچ دیں
لہو کی وسعتوں کا انکشاف ہو
لہو کی عظمتوں کا انکشاف ہو
بدن کے راستے وجود کی صداقتوں کا انکشاف ہو