دعا بمقابلہ بددعا:بڑے لوگوں کی بڑی باتیں
اعظم گڑھ کے کسی گاؤں سے ایک صاحب نے مولانا اشرف علی تھانوی ؒکو خط لکھا۔ اس کامتن کچھ اس طرح تھا :
’’میں آپ کے خلیفہ مولانا عبدالغنی پھول پوریؒ کامرید ہوں۔ میں نے گزشتہ برس مدرستہ الاصلاح میں اپنے بیٹے کا داخلہ کرایاہے۔ الحمدللہ! داخلے کے بعد سے میرے بیٹے میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ نمازیں پڑھتا ہے، گاؤں کے خراب بچّوں سے الگ رہتا ہے اور جی لگاکر تعلیم بھی حاصل کررہاہے۔ میرے بعض اعزّہ کے بچے بھی اسی میں پڑھتے ہیں۔ وہاں پڑھانے میں مجھے بڑی سہولت ہے۔ لیکن میرے مرشد مولانا عبدالغنی صاحب کو یہ بات پسند نہیں ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ بچے کو اس مدرسے سے اٹھالو، وہاں کی فکر صحیح نہیں ہے ۔ بچّہ آزاد خیال ہوجائے گا اور قرآن کو حدیث و تفسیر سے سمجھنے کی بجائے اپنی عقل سے سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ میرے مرشد نے یہاں تک فرمادیاکہ بچے کو وہاں سے ہٹالو ورنہ میں بد دعا کردوں گا۔ جب کہ میرا بیٹا بھی اسی مدرسے میں پڑھنا چاہتا ہے۔ اب آپ فرمائیں میں ایسی صورت میں کیا کروں؟‘‘
مولانا نے خط کامختصر جواب دیتے ہوے فرمایا:
’’ اگر آپ اس بات سے مطمئن ہیں کہ آپ کے بیٹے کی وہاں صحیح تعلیم ہورہی ہے اور آپ کا بیٹا بھی وہیں پڑھناچاہتا ہے تو آپ اسے وہیں پڑھنے دیجیے۔ مولوی عبدالغنی کی بددعا کی فکر مت کیجیے۔ اگر وہ بددعا کریں گے تو میں یہاں سے دعا کردوں گا۔‘‘