دوستوں کی بزم میں ساغر اٹھائے جائیں گے

دوستوں کی بزم میں ساغر اٹھائے جائیں گے
چاندنی راتوں کے قصے پھر سنائے جائیں گے


آج مقتل میں لگا ہے سرپھروں کا اک ہجوم
پھر کسی قاتل کے جوہر آزمائے جائیں گے


ذکر پھر گزرے زمانوں کا وہاں چھڑ جائے گا
وقت کے چہرے سے پھر پردے اٹھائے جائیں گے


چل پڑے گا پھر بیاں اک چاند سے رخسار کا
یاد پھر زلفوں کے پیچ و خم دلائے جائیں گے


بات چل نکلے گی پھر اقرار کی انکار کی
پھر وہی بچپن کے بھولے گیت گائے جائیں گے


یاد آئیں گے فسانے یوں تو سب کو بزم میں
کچھ کہیں گے اور کچھ بس مسکرائے جائیں گے


جو اندھیرے ڈھونڈھتے ہیں منہ چھپانے کے لئے
روشنی کے روبرو اک دن وہ لائے جائیں گے


موت نے ہر بزم کی صورت بدل ڈالی یہاں
رہ گئے کچھ یار سو وہ بھی اٹھائے جائیں گے


آ چلیں عازمؔ پرانے دوستوں کے درمیاں
یاد کی بستی میں پھر کچھ گل کھلائے جائیں گے