ڈالر مرے اس دیس کو نا پاک نہ کرنا

ڈالر ! میرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا

 

ڈالر !مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا

تو ظلم کا حاصل

تو سحر ملوکانہ کا ایک شعبدہ ٔخاص

سرمائے کی اولاد

تو جیب تراشوں کے کمالات کا اک کھیل

تو سود کا فرزند

افلاس کی رگ رگ سے تُو نچڑا ہوا خوں ہے

بیواؤں کی فریاد

ہے کتنے یتیموں کی فغانِ خاموش

تو ضعف کی ایک چیخ

تو کتنے شبابوں کا ہے اک نوحۂ دلگیر

تو کتنی تمناؤں کی ایک قبر سنہری

تاریخ کا ایک اشک

تُو جنگ کی پرہول نفیروں کا  تجَسُّم

تُو موت کی پریوں کا فسوں کار ترنم

تُو برقِ جہاں سوز کا خونخوار تکلم

لاشوں سے کمائی ہوئی دولت

تہذیب کو تُو زخم لگانے کی ہے اجرت

اف کتنی ہی اقوام کے نیلام کی قیمت

بچھو کا ترا ڈنک

سانپوں کا ترا زہر

انگاروں کا ہے سوز

ہے سونے کے لفظوں میں لکھی تلخ حقیقت!

ڈالر! مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا

 

اے سونے کے ڈالر

اس فاقہ و افلاس پہ تُو رحم نہ فرما

بھوکے ہیں یہاں پیٹ

ننگے ہیں یہاں جسم!

پھر روگ ہیں، اور درد

جو چارہ گری کے نہیں شرمندۂ احساں

یہ ٹھیک !  چچا سام کے اے راج دلارے

لیکن مِری اس بات سے ناراض نہ ہونا

بھوکے ہیں اگرپیٹ ، تو ہم بھوکے ہی اچھے

ننگے ہیں اگر جسم ،تو ہم ننگے ہی اچھے

بیمار ہیں بے چارے ، تو ہم مرتے ہی اچھے

! ڈالر مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا

 

تُو آئے تو ڈالر

سو عیش تو ہوں گے

سکھ چین اڑیں گے

زرخیز ہیں گو کھیت

پر قحط اگیں گے

کھاتے تو بھریں گے

ہم فاقے کریں گے

جامے تو سلیں گے

تن کم ہی ڈھکیں گے

آمد تو گرے گی

اور بھاؤ چڑھیں گے

! ڈالر! مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا

 

اس دیس میں تُو آئے، تو اے سونے کے ڈالر

آئے گا رِبا بھی

چھائے گا زنا بھی

پھیلے گا جُوا  بھی!

اڑ جائے گا ہر پھول سے پھر رنگ حیا بھی

اخلاق پہ منڈلائے گی ہر گندی وبا بھی

تُو آئے تو ڈالر

یاں لائے گا اک اور ہی افتاد !یقیناً

یاں پھیلے گا پھر نظریہ الحاد یقیناً

ہو جائیں گے ایمان تو برباد یقیناً

انساں کو بنا دے گا تُو جلاد یقیناً

پِس جائے گی یہ مِلّتِ آزاد! یقیناً

عبرت کا بنا نقش ترے فیض سے ہی چین

ترکی ہے تو مظلوم

برباد فلسطین

! ڈالر مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا

 

تُو آئے تو پھر ہم میں حمّیت نہ رہے گی

اس قوم میں، اس دیس میں غیرت نہ رہے گی

اشراف میں کچھ بوئے شرافت نہ رہے گی

رشتوں میں کہیں روحِ اخوت نہ رہے گی

ڈرتا ہوں میں اسلام کی عزت نہ رہے گی

تُو آئے تو ڈالر

تسلیم کی خو آکے رہے گی

تقلید کی بو آکے رہے گی

احساس کی آواز رکے گی

افکار کی پرواز رکے گی

تُو آئے تو ڈالر

کچھ اور عنایات بھی ساتھ آتی رہیں گی

کچھ خفیہ ہدایات بھی ساتھ آتی رہیں گی

مغرب کی روایات بھی ساتھ آتی رہیں گی

اغیار کی عادات بھی ساتھ آتی رہیں گی

ادبار کی آیات بھی ساتھ آتی رہیں گی

ڈالر! مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا

 

یہ خاکِ مقدس

اک قوم کا گھر ہی  نہیں

اسلام کا گھر ہے

یہ حق کے لیے وقف ہے مسجد کی طرح

مخصوص جو قرآن کے اصولوں کے لیے ہے

اللہ کے لیے ،اس کے رسولوں کے لیے ہے

کانٹوں کے لیے کب ہے؟ یہ پھولوں کے لیے ہے

اس دیس میں اب بزم نئی ایک سجے گی

اس دیس سے تہذیب نئی ایک اٹھے گی

یہ تجرُبہ گاہ ایک نیا دور جنے گی

انساں کو نئی روشنی اب یاں سے ملے گی

پھر مطلع خورشیدہے  یاںشعلہ بداماں

رنگو ں کے یہ گرداب

کرنوں کے یہ طوفان

اک صبح کے سامان

یہ آدمِ خاکی کے لیے آخری امید

یہ جنّتِ اخلاق کی تاسیس ، یہ تمہید

مستقبل ِ انسان کی تاریخ کی تسوید

یہ آخری امید

! ڈالر! مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا