اردو میں انگریزی الفاظ کا استعمال: اصول کیا ہیں؟

کیا اردو میں غیر زبان کے الفاظ قابل قبول نہیں؟ کون سا لفظ اردو کا ہے یا نہیں کون طے کرے گا؟ کیا "ڈاکٹر" لفظ اردو زبان میں استعمال نہیں ہونا چاہیے۔۔۔آئیے ان سوالات کے جواب تلاش کرتے ہیں:

حال ہی میں  سوشل میڈیا پر جناب ذیشان الحسن عثمانی صاحب کی ایک تحریر نظر سے گزری جس میں ایک نجی پبلشر کے اردو قاعدے میں ' ڈ' سے ڈاکٹر پر تنقید کی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ چونکہ "ڈاکٹر" اردو کا لفظ نہیں ہے اس لیے ابتدائی اردو قاعدے میں اس  کا استعمال مناسب نہیں ہے۔  فاضل مضمون نگار  کی رائے کے مطا بق  'ڈاکٹر ' اردو کا لفظ نہیں ہے۔ آیئے  اس رائے کا جائزہ لیتے ہیں ۔

 

اردو کی یہ کتاب ہمارے ملک میں ابتدائی اول KG میں سرکاری اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے. حیرت ہے کے انہیں ڈ سے کوئی لفظ ہی نہ...

Posted by Zeeshan-ul-hassan Usmani on Thursday, June 9, 2022

 

یہ مضمون  بھی اُس عمومی روّیہ پرمبنی  ہے کہ جہاں ہمیں شبہ  ہو کہ فلاں لفظ  انگریزی کا ہے تو فورا"اس تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں  کہ یہ اردو کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے ۔ یہاں تین چار نکات ہمارے سوچنے کے ہیں۔

1۔ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں جب کسی اسپتال یا کلینک جاتے ہیں تو ہم اپنے علاج کے سلسلے میں جن صاحب یا صاحبہ سے ملتے ہیں انھیں ہم کن الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں؟ معالج صاحب، طبیب صاحب، یا ڈاکٹر صاحب؟      

2۔ ہم کسی معالج کے نام کے ساتھ کیا لقب استعمال  کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر اقبال یا طبیب اقبال  ؟ 

 نوٹ: دل چسپ بات ہے کہ اب حکیم  کا لقب کسی مخصوص طریقہء علاج کے حوالے سے استعمال ہوتا ہے

3۔اسی طرح ہم نرس، سرجن، وارڈ بوائے، آپریشن، ایکس رے، الٹرا ساونڈ، انجکشن، تھرما میٹر، لیبارٹری رپورٹ      

وغیرہ جیسے  سینکڑوں  الفاظ کس زبان کے سمجھ کر بول رہے ہوتے ہیں؟  اگر لفظ' ڈاکٹر' قبول نہیں تو اوپر بطور مثال دیے گئے الفاظ کیوں کر قبول ہو  گئے؟

4۔ ہماری  روز مرّہ زندگی  میں اردو بولتے ہوئے، سنتے ہوئے ، پڑھتے ہوئے اور لکھتے ہوئے کتنی مرتبہ لفظ ڈاکٹر  سے واسطہ پڑے گا اور کتنی مرتبہ معالج  یا طبیب سے؟ لغات کی تدوین اور الفاظ سازی میں کثرت استعمال ایک اہم معیار ہوتا ہے۔   یعنی  اگر ہمیں اردو کی ابتدائی کتاب میں 'ڈ'سے شروع ہونے والے الفاظ  استعمال کرنے ہیں  تو ڈول، ڈالی، ڈاکیہ اور ڈاکٹر  میں سے کس لفظ سے ایک بچے کے  کان زیادہ آشنا ہوں گے؟ آج کا بچہ ایک ڈاکٹر کو زیادہ آسانی سے پہچانے گا یا ڈاکیہ کو؟

انگریزی کے صرف و نحو میں کارپس لنگویسٹکس کا طریقہ خاصا مستعمل ہے۔اردو میں بھی اس طریقے کو استعمال کر نے بہت سے معاملات میں بہتری آئے گی۔

 5۔' ڈ 'سے بننے والے جو الفاظ  اردو کا کہہ کر پیش کیے گئے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی زبان ہی سے آکر شامل ہوئے ہوں گے۔  اردو جب بارہویں صدی میں ابھرنی  شروع ہوئی تو اس کے سفر کے آغاز میں تو ذخیرہء الفاظ صفر تھا۔ زیادہ تر الفاظ سنسکرت سے لیے، مقامی بولیوں سے لیے، اور پھر رفتہ رفتہ فارسی، ترکی، عربی الفاظ شامل ہوتے گئے۔ بعد ازاں یورپی زبانوں سے اور بالخصوص انگریزی سے بہت بڑے پیمانے پر الفاظ اردو میں شامل ہوئے۔  اور اردو کا حصّہ بن گئے۔    

اگر پراکرت سے ڈاکیہ اور ڈاکو لیا گیا، پرتگالی سے بالٹی ، فرانسیسی سے پتلون،  اور انگریزی سے کوٹ، سویٹر، مفلر، بس،  ٹرک، لاری،  کار، سائیکل، کمپیوٹر وغیرہ اردو نے اپنا لیے تو "ڈاکٹر" لینے میں تردّد کیوں ہونا چاہیے؟

 حاصلِ گفتگو:زبان کی مسلسل توسیع اس  کی صحت اور توانائی کی ضامن ہے۔  کسی بھی زندہ زبان میں نئے الفاظ اور اصطلاحات مسلسل شامل ہوتے رہتے ہیں۔ اسی سے زبان میں توسیع ہوتی ہے۔ اسی سے زبان میں تازگی اور توانائی آتی ہے ۔   اردوکے ذخیرہء الفاظ میں شامل کوئی  بھی لفظ کسی نہ کسی زبان سے آکر ہی شامل ہوئے ہیں۔ بچوں  کی   کتابوں میں  ڈاکٹر' بھی  ہوگا  اورمعالج بھی  ہو سکتا ہے۔  استانی ، اور معلّمہ  بھی موجودہو گا اور ٹیچر بھی ۔ گاڑی کا لفظ بھی ہوگا اور کار  بھی۔   ہمیں  اپنا ظرف کھلا اور دامن وسیع  رکھنا چاہیئے۔جہاں ایک طرف انگریزی سے لیے گئے الفاظ  کو خوش دلی  سے اردو  کا حصّہ  سمجھنا ضروری ہے وہاں غیر ضروری طور پر انگریزی  کے الفاظ کی بھر ماراور آدھی اردو آدھی  انگریزی کے  پیوند لگا کر گفتگو کرنے سے بھی گریز کرنے کی ضرورت ہے۔

نوٹ از شعبہ ادارت الف یار: ایک جاندار اور زندہ زبان میں مسلسل نئے الفاظ شامل ہوتے رہتے ہیں۔ انگریزی لُغت میں ہر برس نئے الفاظ شامل کیے جاتے ہیں اور ان کی فہرست بھی جاری کی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل "جگاڑ" کو بھی انگریزی لُغت(آکسفرڈ ڈکشنری)  کا حصہ بنایا گیا۔ بلکہ نئے الفاظ تخلیق کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔ جیسے چند ماہ قبل ایک پاکستانی طالبہ نے نیا انگریزی لفظ تخلیق کیا۔

 

متعلقہ عنوانات