ڈاکٹر اسرار احمد کے یوٹیوب چینل کی بندش: ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
یکم اپریل، بروز جمعہ یوٹیوب کا ایک اعلان سامنے آیا۔"ہم نے جائزہ لینے کے بعد اسرار احمد کے چینل کو ہیٹ سپیچ پالیسی توڑنے پر (یوٹیوب سے)ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔"
یوٹیوب کا یہ فیصلہ ایک برطانوی ہفتہ وار اخبار جیوز کرانیکل کے خاصے دباؤ کے بعد کیا گیاتھا۔ جیوز کرانیکل پچھلے کئی ماہ سے بہت سے مسلمانوں کے ہر دل عزیز عالم دین اور محقق قرآن ڈاکٹر اسرار احمد کے خلاف رپورٹس شائع کر رہا تھا۔ آخر میں اس اخبار نے خالد حسینی نامی شخص کا انٹرویو شائع کیا۔ اس شخص کا کہنا تھا کہ میں نے یوٹیوب کو کئی بار مطلع کیا کہ ڈاکٹر اسرار کی ویڈیوز یہودی کمیونٹی کے خلاف نفرت پر مبنی ہوتی ہیں۔ وہ یہودیوں کو شیطان کا پجاری گردانتے ہیں۔ وہ یہودی عالمی نظام کی بات کرتے ہیں اور انہیں ملعون قوم کہتے ہیں جو صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف سازشیں بن رہی ہے۔
اخبار نے مزید لکھا کہ جنوری میں ایک برطانوی پاکستانی ملک فیصل اکرم نے امریکی ریاست ٹیکساس میں ایک یہودی معابد میں چار یہودیوں کو یرغمال بنایا تھا۔ یہ فیصل اکرم بھی ڈاکٹر اسرار کی ویڈیوز سے متاثر تھا۔
یوٹیوب جو پچھلے کئی ماہ سے ڈاکٹر اسرار کی ویڈیوز ہٹانے پر مزاحمت کر رہا تھا، آخر کار ہتھیار ڈال گیا۔ پہلے جو اس کے لیے مذہبی لیکچر religious speech تھا اب ہیٹ سپیچ hate speechبن گیا۔ یوں انتیس لاکھ سبسکرائبرز کا چینل جس پر دو ہزار سے زائد ویڈیوز موجود تھیں، اورجو کروڑوں انسانوں کی اصلاح کا باعث تھا، لمحوں میں بند کر دیا گیا۔
یہ قابل مذمت اقدام ہے۔ یوٹیوب پر آزادی رائے کی اس خلاف ورزی پہ لعنت ملامت کی جاسکتی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یوٹیوب اگر یوکرائن میں روسی افواج کو برا بھلا کہنے کو ہیٹ سپیچ نہیں سمجھتا تو اسے اسرائیلی سفاک افواج کی مذمت کو بھی ہیٹ سپیچ کے کھاتے میں ڈالنا نہیں چاہیے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر اسرار کے چینل پر پابندی ان کے دہرے معیارات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کی مسلح جدوجہد کی حمایت عالمی قوانین کے عین مطابق ہے، بالکل ایسے ہی جیسے یوکرائنی مسلح مذمت۔ یوٹیوب اس کو روک کر عالمی قوانین کی پامالی کر رہا ہے۔
یہ سب کہا تو جا سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے ڈاکٹر اسرار کا چینل بحال ہو جائے گا؟ کیا گارنٹی ہے کہ آج یہ بند ہوا ہے، کل کوئی دوسرا چینل بند نہیں ہوگا؟
جناب بات دراصل یہ ہے کہ پرائے مکان میں من مرضیاں نہیں ہوتیں۔ یوٹیوب جن کا ہے، بتائیں گے بھی وہ ہی کیا نفرت پر مبنی مواد ہے اور کیا آزادی رائے۔ کون آزادی کے خاطر لڑ رہا ہے اور کون دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔ کس کی حمایت کرنی ہے اور کس کی مذمت۔ آپ شور مچا سکتے ہیں، دوہائی دے سکتے ہیں دوہرے معیارات کی، احتجاج کر سکتے ہیں، برا بھلا کہہ سکتے ہیں اور بس۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ یوٹیوب تو وہ کرے گا جو اس کا مفاد ہے۔ اگر آپ کی حمایت اس کا مفاد ہے تو کرے گا، نہیں ہے تو نہیں۔ گلا کیسا؟
سوال تو تمام یہ ہے کہ یوٹیوب یا کوئی اور پلیٹ فارم ایسا نہ کر پائے، ہم نے اس کے لیے کیا اقدام کیا؟ کیا کوئی منصوبہ بنایا یا کوئی لائحہ عمل تشکیل دیا؟ جواب صاف ہے، نہیں! نہ تو ہم نے خود کوئی ایسا قدم اٹھایا ہے جس کے تحت ہم ایسا پلیٹ فارم تشکیل دیتے جو ہماری پالیسیوں کے مطابق چلتا۔ اس پر ہماری بات ہوتی۔ ہماری اقدار فروغ پاتیں۔ ہمیں بھی آزادی رائے کا حق ہوتا۔ ہم کسی آزادی کے متوالے کو دہشت گرد گرداننے پر مجبور نہ ہوتے۔ سانسیں ہماری بھی بحال ہوتیں۔ لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ ڈاکٹر اسرار کے چینل کا یہودی دباؤ پربند ہونا ہمارے لیے ایک موقع ہے سوچنے کا۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مغربی طاقتیں اسے دبا نہیں پا رہیں کہ اس نے اپنی چیزیں پروان چڑھا لی ہیں۔ وہ بہت سے مغربی پلیٹ فارمز پر انحصار کرنے پر مجبور نہیں۔ یہ اس کی آزادی ہے۔ اور جان لیں کہ یہی اصل آزادی ہے۔ آہ کہ ہم اس آزادی سے کوسوں دور ہیں۔ تلخ ہے پر یہی حقیقت ہے۔