دو گڑھے

مجھے آپ افسانہ نگار کی حیثیت سے جانتے ہیں اور عدالتیں ایک فحش نگار کی حیثیت سے، حکومت مجھے کبھی کمیونسٹ کہتی ہے اور کبھی ملک کا بہت بڑا ادیب۔ کبھی میرے لئے روزی کے دروازے بند کئے جاتے ہیں، کبھی کھولے جاتے ہیں، کبھی مجھے غیر ضروری انسان قرار دے کر ’’مکان باہر‘‘ کا حکم دیا جاتا ہے۔ کبھی موج میں آ کر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ نہیں تم ’’مکان اندر‘‘ رہ سکتے ہو۔ میں پہلے بھی سوچتا تھا، اب بھی سوچتا ہوں کہ میں کیا ہوں۔ اس ملک میں جسے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کہا جاتا ہے، میرا کیا مقام ہے، میرا کیا مصرف ہے۔

آپ اسے افسانہ کہہ لیجئے، مگر میرے لئے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ میں ابھی تک خود کو اپنے ملک میں جسے پاکستان کہتے ہیں اور جو مجھے بہت عزیز ہے اپنا صحیح مقام تلاش نہیں کر سکا۔ یہی وجہ ہے کہ میری روح بے چین رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں کبھی پاگل خانے میں اور کبھی ہسپتال میں ہوتا ہوں۔

میں کچھ بھی ہوں، بہرحال مجھے اتنا یقین ہے کہ میں انسان ہوں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مجھ میں برائیاں بھی ہیں اور اچھائیاں بھی، میں سچ بولتا ہوں، لیکن بعض اوقات جھوٹ بھی بولتا ہوں۔ نمازیں نہیں پڑھتا، لیکن سجدے میں نے کئی دفعہ کئے ہیں۔ کسی زخمی کتے کو دیکھ لوں تو گھنٹوں میری طبیعت خراب رہتی ہے، لیکن مجھے ابھی تک اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ میں اسے اٹھا کر اپنے گھر لے آؤں اور اس کا علاج معالجہ کروں۔ کسی دوست کو مالی مشکلات میں گرفتار دیکھتا ہوں تو میرے دل کو بہت دکھ ہوتا ہے، لیکن میں نے اکثر ایسے موقعوں پر اس دوست کی مالی امداد نہیں کی، اس لئے کہ مجھے شراب خریدنا ہوتی تھی۔ مجھے کسی اپاہج لڑکی سے ملنے کا اتفاق ہو، تو میرے دل و دماغ میں طوفان برپا ہو جاتا ہے۔ میں اپاہج بن کر اس کی جگہ اختیار کر کے گھنٹوں سوچتا ہوں۔ اس کی زندگی کے المیہ کے متعلق غور و فکر کرتا ہوں، پھر معاً تہیہ کرتا ہوں کہ میں اس سے شادی کر لوں گا۔ مگر یہ تہیہ فوراً غائب ہو جاتا ہے، جب میں اس کا ذکر اپنی بیوی سے کرتا ہوں۔

میں افسانہ نگار ہوں۔ میرے تخیلات کی پرواز بہت اونچی ہے، لیکن افسوس ہے کہ اونچا اڑ کر پھر ایسا گرتا ہوں کہ پاتال کی انتہائی گہرائیوں تک پہنچ جاتا ہوں اور وہاں اوندھے منہ پڑا سوچتا ہوں کہ جب گرنا ہی تھا تو اڑنے کا تکلف کیوں کیا۔۔۔ لیکن شاید چھوٹے چھوٹے حادثے جو ہم چھوٹے بندوں کی لغزشوں کے باعث ظہور پذیر ہوتے ہیں، مجھے بے حد متاثر کرتے ہیں۔ میں کیلے یا خربوزے کے چھلکے کبھی برداشت نہیں کر سکتا جو سڑک پر پڑے ہوتے ہیں، مجھے ان لوگوں کی کم عقلی پر رونا آتا ہے جن سے یہ بے پروائی سرزد ہوتی ہے۔ مجھے پھر رونا آتا ہے، جب میں دیکھتا ہوں کہ لوگ اپنے گھر کے چوہے پکڑتے ہیں اور دوسرے محلے میں چھوڑ آتے ہیں۔ اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ نکالتے ہیں اور جھاڑو سے اپنے ہمسائے کے دروازے کے ساتھ لگا دیتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ یہ سب حماقتیں تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہیں۔ جب متفقہ طور پر یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے تو پھر یہ کیا حماقت ہے کہ تعلیم عام نہیں کی جاتی۔ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ لوگ جن کے ہاتھ میں عوام کو تعلیم دینے کا کام ہے، خود تعلیم یافتہ نہیں۔ میں جھنجھلا جھنجھلا جاتا ہوں، جب میں سوچتا ہوں کہ ہمارے حکام پرلے درجے کے غافل ہیں، ایک شخص وزیر بنتا ہے تو اس کے گھر کی طرف جو سڑک جاتی ہے، اس پر ہر روز چھڑکاؤ شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی صفائی کا خیال ہر داروغے کو رکھنا پڑتا ہے، لیکن وہ مقامات جہاں صفائی اور چھڑکاؤ کی اشد ضرورت ہے، ان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔

ایک وزیر کا حلق گرد و غبار کے باعث خراب ہو جائے یا دوسرے وزیر کو مچھر کاٹ لے، اس سے کیا ہوتا ہے۔ وہ سیکڑوں اور ہزاروں بچے جو گندی موریوں کی تعفن آمیز فضا میں رہتے ہیں، وہ ان وزیروں سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔۔۔ کیونکہ یہی وہ مخلوق ہے جو جنگ کے میدانوں میں اپنے سینے پر گولیاں کھاتی ہے اور فتح و شکست کا فیصلہ کرتی ہے۔ یہ باتیں اتنی واضح اور صاف ہیں کہ ہر شخص جانتا ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے حکام بھی، پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ افراط و تفریط کیوں ہر جگہ مسلط نظر آتی ہے۔ میں تو بعض اوقات ایسا محسوس کرتا ہوں کہ حکومت اور رعایا کا رشتہ روٹھے ہوئے خاوند اور بیوی کا رشتہ ہے۔ بظاہر ہے لیکن درحقیقت کچھ بھی نہیں۔

مجھے بحیثیت افسانہ نگار یہ رشتہ بہت دلچسپ معلوم ہوتا ہے، اگر آپ بھی تھوڑی دیر کے لئےغور کریں تو بے شمار دلچسپیاں آپ کو اس میں مل جائیں گی۔ بیوی اپنی من مانی کرتی ہے۔ شوہر اپنی من مانی۔ دونوں حقوق زوجیت ادا نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود زن و شوہر ہیں۔ آپس میں نکمی باتوں پر جھگڑے ہوتے ہیں۔ شریک دیکھتے ہیں اور ہنستے ہیں مگر ان کا رشتہ جوں کا توں بودا رہتا ہے۔ حکومت اور رعایا کے باہمی اختلاط سے (جبری اختلاط کہنا صحیح ہوگا) بچے پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن بڑے سیفٹی ایکٹ اور آرڈی نینس قسم کے۔ جن کی شکل و شباہت حکومت سے ملتی ہے، نہ رعایا سے۔ میں ان کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتا سوائے اس کے یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔

میری سمجھ سے بہت سی چیزیں بالاتر ہیں۔ میں امریکہ کی زرپرستانہ، ملک گیری کی ہوس سمجھ سکتا ہوں۔ مجھے روس کے ہتھوڑے اور اس کی درانتی کے نشان کا اصل مفہوم سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن یہاں میرے ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے، میرے فہم و ادراک سے بالاتر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جو کچھ آج میری نظروں کے سامنے ہو رہا ہے بہت اونچا ہے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بہت نیچا ہو۔ بہرحال مجھے اس بات کا ہمیشہ افسوس رہے گا کہ مجھے سمجھانے والا کوئی نہیں ملا۔

امریکہ سے جو فوجی امداد لینے کا معاہدہ ہو رہا ہے، اس کو ایک افسانہ نگار کیا سمجھے گا۔ ترکی سے پاکستان کا جو معاہدہ ہوا ہے، اس پر ایک کہانی لکھنے والا کیا تبصرہ کر سکتا ہے۔ وہ یہ بھی نہیں پوچھ سکتا کہ لیاقت علی خان کے قتل کی تفتیش کا کیا حشر ہوا، اس کو یہ سوال کرنے کی بھی جرات نہیں ہو سکتی کہ لیاقت علی خان کے قاتل کو کیا سزا ہوئی کہ آخر وہ بھی انسان تھا جو موت کے گھاٹ اتارا گیا، لیکن وہ یہ تو پوچھ سکتا ہے کہ وہ دو گڑھے جو تار گھر کے اس طرف چوک میں، میکلوڈ روڈ کی طرف جانے والی سڑک کے آغاز پر کھدے ہوئے تھے ان کا کیا مطلب تھا۔ یہ گڑھے شائد اب پر کر دیے گئے ہیں، لیکن وہ ٹرک ابھی تک وہاں کھڑا ہے جو ان کا شکار ہوا تھا۔ معلوم نہیں یہ کب تک شکستہ حالت میں کھڑا رہے گا، اور میری طرح سوال کرتا رہے گا کہ یہ دو گڑھے جو اس کی شکست و ریخت کا باعث ہوئے، ان کا مطلب کیا تھا۔

اگر یہ گڑھے صرف اس لئے کھودے گئے تھے کہ رات کی ناکافی روشنی میں ٹانگے ان میں گریں۔ گھوڑے مریں یا لولے لنگڑے ہوں، سائیکل سوار اپنی ہڈی پسلی تڑوائیں، کوئی موٹر سائیکل پر فلمی گیت کی دھن الاپتا ہوا آئے اور ایسی پٹخنی کھائے کہ اسے ثریا ہی نظر آ جائے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ پبلک کو ایسے تفریح کے مواقع بہم پہنچانے کا کام کبھی کبھی کارپوریشن کو کرنا ہی چاہیئے، لیکن مجھے یہ جھنجھلاہٹ ہوتی ہے کہ اگر میں یہ کہوں گا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے تو حکومت مجھے دھر لے گی اور یہ الزام لگائے گی کہ تمہیں کیوں اعتراض نہیں ہے، جبکہ ہمیں ہے۔

سچ پوچھئے تو آج کل اعتراض کرنے کا زمانہ ہی نہیں۔ سگریٹ بلیک میں مل رہے ہیں، آپ اعتراض کریں تو اس سے کچھ حاصل وصول نہیں ہوگا۔ چھوٹے دکاندار آپ سے یہ رونا روئیں گے کہ صاحب جن کو کوٹہ ملتا ہے، ہم ان سے خریدتے ہیں۔ دس آنے کی ڈبیا، گیارہ آنے میں ملتی ہے۔ ہم اگر دو پیسے یا ایک آنہ منافع لیتے ہیں تو بتایئے یہ کیا جرم ہے؟آٹے دال کا بھاؤ دیکھئے تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جاتا ہے۔ دم مارنے کی مجال نہیں لیکن پھر بھی آدمی سوچتا ہے کہ آخر سگریٹوں کی بلیک کیوں ہو رہی ہے۔ وہ جسے سول ایجنٹ کہتے ہیں، اس سے یہ سوال کیوں نہیں کیا جاتا، آخر یہ سگریٹ اسی کے ذریعے سے آتے ہیں۔ کیا اسے کمپنی کو زیادہ دام دینے پڑتے ہیں؟ کیا کمپنی کسی وجہ سے ضرورت سے بہت کم سگریٹ مہیا کر رہی ہے۔ بہرحال یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ دریافت کرے کہ سول ایجنٹ یا کمپنی کو کیا تکلیف ہے تاکہ اس کے ازالے کے لئے کوئی ترکیب سوچی جا سکے، مگر مصیبت یہ ہے کہ حکومت خود بہت سی تکلیفوں کا شکار ہے۔

یوں تو ہمارے ارد گرد بے شمار گڑھے ہیں، جن کو پر کرنے کے لئے عمر خضر درکار ہے لیکن میں ان دو گڑھوں کی بات کر رہا تھا، جو تار گھر کے اس طرف اس سڑک کے آغاز پر کھودے گئے تھے یا خود بخود کھد گئے تھے جو رات کی نیم تاریکی میں کارپوریشن لوگوں کی نگاہوں سے چھپائے رکھتی تھی۔

پاکستان میں اپنا صحیح مقام میں ابھی تک معلوم نہیں کر سکا، لیکن بزعم خود یہ سمجھتا ہوں کہ میری شخصیت بہت بڑی ہے۔ اردو ادب میں میرا نام بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے(یہ خوش فہمی نہ ہو تو زندگی اور بھی اجیرن ہو جائے۔) اسی لئے چند روز پہلے مجھے ان گڑھوں کی اہمیت معلوم ہوئی، جو بظاہر غیر ضروری معلوم ہوتے تھے، لیکن درحقیقت بہت ضروری تھے۔ غیر ضروری اس لئے تھے کہ ان کے بغیر بھی لوگ زخمی ہو سکتے تھے۔ یہ نہ ہوتے جب بھی یہاں شکست و ریخت کا سلسلہ جاری رہتا۔ ضروری اس لئے تھا کہ ان کی موجودگی سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ کارپوریشن کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے۔ عرصہ ہوا، مجھے محکمہ آبادکاری کی طرف سے یہ نوٹس موصول ہوا تھا کہ تم غیر ضروری آدمی ہو، اس لئے وہ مکان جو تمہیں الاٹ کیا گیا ہے، خالی کر دو۔ میرا خیال ہے کہ یہ نوٹس بالکل غیر ضروری تھا۔ اس لئے کہ جب تک سڑکوں پر غیر محفوظ گڑھے موجود ہیں، غیر ضروری انسانوں کو انخلا کا حکم دینے کا سوال بہت مضحکہ خیز ہے۔

چند روز ہوئے میں نے ٹی ہاؤس سے نکل کر ٹانگہ لیا۔ ڈاک خانے کے پاس پہنچا تو مجھے خیال آیا کہ میکلوڈ روڈ کی طرف سے بیڈن روڈ چلنا چاہیئے کہ راستے میں پھلوں کی دکان آتی ہے۔ جہاں سے میں عموماً اپنی بچیوں کے لئےمالٹے وغیرہ لیا کرتا ہوں۔ ٹانگے نے جب تار گھر کے اس طرف میکلوڈ روڈ کا رخ کیا تو رات کے دھندلکے میں دفعتاً مجھے دو بڑے بھیانک گڑھے نظر آئے۔ مجھے حیرت ہے کہ یہ کیسے دکھائی دیے، اس لئے کہ مجھے اندھراتا کا مرض ہے۔ مجھے رات کے اندھیرے میں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ میں ایک دم چلایا۔ کوچوان نے میری چیخ سن کر باگیں کھینچیں۔ گھوڑا کچھ اس طرح رکا کہ ٹانگہ دو گز پیچھے چلا گیا۔ اگر گھوڑے کا قدم ایک فٹ آگے بڑھ جاتا تو معلوم نہیں کیا ہوتا۔ ٹانگے والے نے مجھے ہزار ہزار دعائیں دیں کہ اس کا گھوڑا اپاہج ہونے سے بچ گیا۔ اس لئے کہ سو قدم کے فاصلے پر ایک شکستہ ٹانگہ پڑا تھا جس کا گھوڑا زخمی حالت میں کراہ رہا تھا۔

میں سوچ رہا تھا کہ پاکستان کا سب سے بڑا افسانہ نگار بچ گیا۔ اس وقت مجھے قوم کے نقصان کا خیال تھا۔ یہ احساس مطلق نہیں تھا کہ میری بیوی ہے۔ میری تین بچیاں ہیں۔ مجھے اس وقت صرف یہ خیال تھا کہ میں قوم کا سرمایہ ہوں جو تباہ و برباد ہونے سے بچ گیا ہے۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ میری موت ایک غیر ضروری انسان کی موت ہوتی۔ چند عزیزوں اور دوستوں کی آنکھیں ضرور نمناک ہوتیں، مگر اس ملک کی ایک آنکھ بھی آنسو سے بھر نہ آتی جس کا سرمایہ میں خود کو سمجھتا ہوں۔ میں اس معاملے میں بہت بڑا چغد ہوں، لیکن اس خیال سے تھوڑی سی ڈھارس ہوتی ہے کہ چغد ہونا ہی انسانیت کی نشانی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ یہ میری حماقت تھی کہ میں نے ان دو گڑھوں کو صرف اپنی ذات اقدس سے منسوب کر لیا، ورنہ ان میں ہر انسان کی لاش سما سکتی تھی۔ خواہ اس کا نام سعادت حسن منٹو ہوتا یا کچھ اور۔

یوں تو بہت سی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں لیکن یہ بات تو بہت ہی زیادہ سمجھ میں نہیں آتی، کہ تار گھر کے اس طرف یہاں دو گڑھے کھودے گئے تھے یا خود بخود کھد گئے تھے۔ وہاں کوئی ایسا نشان کیوں نصب نہیں کر دیا گیا تھا جو لوگوں کو بتاتا کہ دیکھو اگر تمہیں زخمی ہونا یا مرنا بہت ضروری ہے تو بصد شوق آؤ، جملہ سامان موجود ہے، لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو یہاں سے دور رہو۔ اگر خدا کو تمہاری موت منظور ہے تو وہ تمہیں سیدھی اور صاف سڑک پر بھی عزرائیل کے سپرد کر دے گا۔ سنا ہے، دوسرے ملکوں میں یہ رواج ہے کہ اگر سڑک پر کوئی اس قسم کی ستم ظریفی واقع ہو تو حکام اس مخدوش جگہ کے ارد گرد رسّہ تان دیتے ہیں یا کوئی ایسا نشان لگا دیتے ہیں جس سے لوگ خبردار رہیں۔ رات کو سرخ لالٹینیں رکھ دی جاتی ہیں تاکہ آنے جانے والے خطرے سے آگاہ رہیں۔

یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہماری کارپوریشن ایسی معمولی سی بات نہیں جانتی اگر اس نے تار گھر کے اس طرف دو عمیق گڑھوں کو مخدوش قرار نہیں دیا تو اس میں ضرور کوئی مصلحت ہوگی۔ وہ شخص جو محض ایک افسانہ نگار ہے، وہ اسے کیوں کر سمجھ سکتا ہے، لیکن اسے اپنی ہیچمدانی کا اعتراف کرتے ہوئے اتنا پوچھنے کا حق تو ضرور ہے کہ وہ مصلحت کیا تھی؟ اور کچھ نہیں تو اسے ایک اور افسانہ لکھنے کا مواد حاصل ہو سکے۔

تار گھر کے اس طرف جہاں آج سے کچھ دن پہلے دو گڑھے کھودے گئے تھے، یا خود بخود کھد گئے تھے، ایک شکستہ ٹرک تین پہیوں اور بہت سی اینٹوں کے سہارے کھڑا ہے۔ معلوم نہیں وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہے یا کارپوریشن سے۔ میں تو اس کی بے زبانی کسی حد تک سمجھ سکتا ہوں، لیکن کارپوریشن جو بہت بڑی ڈرامہ نگار ہے اور اپنے وقت کی آغا حشر ہے۔ اس کی بے زبانی سمجھ لے گی؟ میں اس کے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتا۔ میری رائے ہے کہ ہماری صوبائی حکومت کو فوراً ایک تحقیقاتی کمیشن ان دو مبینہ گڑھوں کے اوپر بٹھا دینی چاہیئے۔ جب تک یہ کمیشن اپنی اپنی رپورٹ کے کاغذوں سے ان کو پر کرے گی اور کئی گڑھے کھد جائیں گے یا کھود لئے جائیں گے تاکہ ایسی دوسری کمیشنوں کے لئے جگہ پیدا ہو سکے۔

تار گھر کے اس طرف کے دو گڑھے زندہ باد! اور اس طرف کے وہ گھوڑے اور انسان مردہ باد جو ان میں گر کر نہ مر سکے۔