دو بھی بوسے مجھے اک ماہ میں اے ماہ نہ دو
دو بھی بوسے مجھے اک ماہ میں اے ماہ نہ دو
وضع یہ کیا ہے کہ نوکر رکھو تنخواہ نہ دو
خوش ادا اور تو کیا تم سے توقع افسوس
ایک گالی بھی مجھے آن کے تم آہ نہ دو
بے مزہ ہو کے جو بوسے بھی دئے کیا ہے مزا
وہ تو اک راہ محبت سے بہ اکراہ نہ دو
یاد چشم بت مغرور دلائے ہے مجھے
دوستو تم گل نرگس مجھے للہ نہ دو
ایک خجلت سی ہے خجلت مجھے عشاق میں آہ
کہ سرانجام ہوئے نالۂ دل خواہ نہ دو
ایک بھی بوسہ نہ دو کہتے ہو پھر ناز سے تم
ہم تو اک بوسہ تجھے دیویں گے اے واہ نہ دو
در کیا بند تو دیوار سے آیا احساںؔ
ایسے بے راہ کو گھر اپنے میں تم راہ نہ دو