دئیے کی لو سے نہ جل جائے تیرگی شب کی
دئیے کی لو سے نہ جل جائے تیرگی شب کی
کہ دن کی قدر کا باعث ہے ہر گھڑی شب کی
جو دل خراش ہیں کچھ لمحے دن کے لمحوں میں
تو دل فروز بھی ہیں ساعتیں کئی شب کی
کہاں کے خواب مرے اور کہاں کی تعبیریں
مجھے تو سونے نہ دے اب سحر گری شب کی
جو وہ نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے پھر حامدؔ
عبث ہیں چاند کے بن رونقیں سبھی شب کی