دئیے بجھا دو

دیے بجھا دو
اور ان دیوں کو جلائے رکھنے کے سارے اسباب تلف کر دو
وجود کی سلطنت کے اس پار بھی اندھیرا
وجود کی سلطنت کے اس پار بھی
اندھیرا ہے تو اچھا
گھٹن بڑھا دو
کہ سانس رک رک کے اب بھی سینے میں آ رہی ہے
کچھ اور میخیں اتار دو آر پار دل کے
کچھ اور گہرا چلاؤ نشتر
صلیب پر زندگی ابھی کسمسا رہی ہے
دیے بجھا دو
اور ان دیوں کو جلانے والی نگاہ کے دیپ بھی بجھا دو
یہ روشنی کی پیامبر
یہ سحر کی مخبر
بہت ہوا نوچ لو یہ آنکھیں
دھواں دھواں سب سکوت کر دو
دیے بجھا دو