دنی ہیں سب کوئی راتی نہیں ہے

دنی ہیں سب کوئی راتی نہیں ہے
اندھیروں کا کوئی ساتھی نہیں ہے


تو کیا بے خواب ہی رہ جاؤں گا میں
مجھے تو نیند ہی آتی نہیں ہے


کہ ہر بیمار ان آنکھوں سے دوا پائے
شفا خانہ یہ خیراتی نہیں ہے


لگا ہے کتنا سرمایہ زباں کا
یہ کار شاعری ذاتی نہیں ہے
تراشی جا چکی امید کی لو
دیا جلتا ہوا باتی نہیں ہے


صدا جاتی تو ہے اس کی گلی میں
وہاں سے لے کے کچھ آتی نہیں ہے


اکیلے پڑ گئے ہم کارواں میں
کہ اب کے وہ مرا ساتھی نہیں ہے


لگے ہیں سارے سازندے بدن کے
مگر یہ روح نغماتی نہیں ہے


رہے گا بے بدن ہی فرحتؔ احساس
ہوا پر کوئی دیہہ آتی نہیں ہے