ڈِنگ
بشارت احمد نے بستی خانقاہ سراجیہ کے ایک کھوکھے سے درجن بھرمالٹے خرید کیے۔ مالٹے نارنجی رنگ کے تھے۔ اس نے مونگ پھلی اورچلغوزے خریدنے کا بھی سوچاتھا۔ سیب اورکیلے خریدنے کا بھی اس نے ارادہ کیاتھا۔ لیکن جیسے ہی اس کی نظرمالٹوں پرپڑی اسے اپنی گم شدہ اجڑی بستی کی آخری شام کی وہ نارنجی کرنیں یادآگئیں جو اس نے اپنے صحن میں موجود کیکرکے درخت سے لپٹی دیکھی تھیں۔ وہ شام تھی کہ قیامت؟ اس کے گھرجیساکہرام بستی کے ہرگھرمیں رقصاں تھا۔ سامان سمیٹاجارہاتھا۔ ٹریکٹرٹرالیوں اورریڑھیوں پرلاداجارہاتھا۔ بستی کے ہرشخص کے چہرے پرخاموشی کی دبیز تہہ تھی، چہرے تفکرات، اندیشوں اورمستقبل کے خوف کی دھول میں اٹے تھے۔ سب نامعلوم منزل کو رواں تھے۔ اس نے ایک بار پھرمالٹوں کو غورسے دیکھا۔
وہ رنگ بدل رہے تھے۔ پہلے وہ پیلے ہوئے، بالکل زرد اس کے چہرے کی مانند اورپھر ان میں سے خون رسنے لگا اس کے ارمانوں کی طرح! اس کا جی چاہا وہ انہیں پھینک دے.....
گھرپہنچ کر اس نے مالٹے میزپررکھے۔
اس کے دماغ کے خلیوں میں بے شمارسوالات کے جراثیم پرورش پارہے تھے۔ وہ سرپکڑکر چارپائی پربیٹھ گیا اورسوچنے لگا۔ میری بستی کی آخری شام میرے اندرمرکیوں نہیں جاتی۔ اسے مرجاناچاہیے۔ جب انسان گزرجاتے ہیں تویادیں آدمی کے اندرساری عمرکیوں عذاب اگاتی رہتی ہیں۔ جیسے انسانوں کے جنازے اٹھتے ہیں، ارتھی اٹھتی ہے، ایسے ہی ذہن میں بھی کوئی سلسلہ ہوتا، یادمرجاتی، دفن ہوتی اورکبھی لوٹ کر واپس نہ آتی۔ یادوں کی رومیں ایک وکیل کی جناح کیپ اس کی سوچوں کے لیے عذاب ہوگئی..... ہاں ہاں..... بالکل وکیل آیاتھا، بستی کا اکلوتا وکیل، شریف النفس اونچا دراز قد، شانے کشادہ، چہرے پرداڑھی، سرپرجناح کیپ، ہردلعزیز، ملنسار، بستی کے لوگوں کا غم خوار..... وہی وکیل..... جب شام ڈھلے اس کے گھرآیاتھا تواس لمحے اس کے والد کے آگے اس کی ماں نے کھاناپروساتھا۔ تازہ سبز چنے کا سالن تھا۔ اس کا والد پگڑی سرسے اتارکرتکیے پردھرے کھاناکھارہاتھا۔ جب اسے وکیل کی آمد کی اطلاع کی گئی تواس نے کہا۔
پُتر..... وکیل صاحب کو بیٹھک میں بٹھا۔ میں کھاناکھاکرآرہاہوں۔
بشارت احمد نے دیکھا اس کا والد عجلت میں لقمے نگل رہاتھا۔ ایسی کیا بات ہے؟ بابا کو جلدی کیوں ہے۔
اس کا بابا بیٹھک میں داخل ہوا توچہرے پرخوف اورپسینہ تھا۔
وکیل صاحب کیا خبرلائے ہیں آپ.....؟
وکیل سرنیہواڑے اپنے پاؤں کے انگوٹھوں پرنظریں جمائے جناح کیپ گودمیں رکھے چپ تھا۔ وکیل صاحب کچھ توبولیے.....؟
ملک صاحب، حکومت نے بستی خالی کرانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ خبریہ ہے کہ ایک بہت بڑاپراجیکٹ شروع کرنے کا منصوبہ جوزیرِ غورتھا، حتمی شکل پاگیاہے۔ ہماری بستی ’’ڈِنگ‘‘ ہی نہیں ساتھ کا قصبہ ’’کھولا‘‘ بھی.....! وکیل کی آواز بھراگئی۔ بشارت احمد کا والد ملک فتح شیرچرچراتی چارپائی پریوں بیٹھا جیسے شہتیرٹوٹ کرگرتاہے۔ بہت سی باتیں بشارت احمد کی سمجھ سے بالاترتھیں۔ وہ عمرکی اس سرحد پرکھڑاتھا جہاں ہرطرف پھول کھلتے ہیں، رنگ بکھرتے ہیں۔ لیکن اس نے بھی آنے والے خطرے کی بُوسونگھ لی۔ وہ بھانپ گیا کہ کچھ ہونے والاہے۔
ایک خوف پوری بستی میں سرایت کرگیا۔ اگلی صبح وہ گھرسے نکلا۔ اس نے دیکھا چھپرتلے مدھانی خاموش ہے۔ ماں آج لسّی نہیں ملے گی.....؟ چارپائی پربیٹھی متفکرماں سے اس نے پوچھا۔ لسی.....؟ آج توماں نے بھینسوں کا دودھ بھی نہیں نکالا۔ اس کی بہن نے کہا۔ اس نے بھینسوں کے ڈکارنے کی آواز سنی۔ تو ان بے زبانوں کو بھی معلوم ہوگیاہے کہ بستی خالی کرائی جارہی ہے۔
اچانک ایک خیال اس کے دماغ میں کوندا۔ پلٹ کر اس نے گھرکے درودیوارکودیکھا۔
کیوں نہ میں اپنے اس گھرکو اپنے اندرتعمیرکرلوں.....! وہاں سے تواسے کوئی بھی گراکراپنا منصوبہ شروع نہیں کرسکے گا۔ یہ خیال اسے اتنابھایا پہلے اس نے سارے کمرے اپنے اندرتعمیر کیے۔ صحن میں لگے تلسی کے پودے کھرپے سے نکال کر اپنے اندرلگائے۔ چھپربنایا، اس میں بھینسیں اورگائے باندھی۔ بکریوں کی چرنیاں تک اس نے ترتیب سے رکھیں۔ کیکرکادرخت لگانے میں اسے بہت محنت کرناپڑی۔ کیکرکے ایک بڑے ٹہن پرلگا، رسے کا جھولا جو وہ ہرسال عیدپرجھولا کرتے تھے، اسے بھی اس نے نظراندازنہیں کیا۔ جب اسے یقین ہوگیا کہ پوراگھر سازو سامان سمیت اس کے اندر تعمیرپاگیا ہے تووہ سرشارہوگیا۔ وہ گھرسے نکلا۔
گلی میں بنٹے کھیلتے بچوں پراچٹتی سی نظرڈالتے ہوئے وہ اپنے کھیتوں کی جانب بڑھ رہاتھا۔ ٹیوب ویل پروہ جی بھرکے نہاناچاہتاتھا۔ ٹیوب ویل پرنہاتے ہوئے اسے خیال آیا۔ کیوں نہ اپنے گھرکی مانند اس پوری بستی کو میں اپنے اندرتعمیرلوں.....! مالٹے اس کے سامنے دھرے تھے۔ وہ ماضی کی حویلی میں مقیدتھا۔ اپنے وطن میں بستی تعمیرکرنے کا خیال اسے گھیرنے لگا۔ اگرمیں بالکل اسی طرح ہمت کرکے پوری بستی اپنے اندربسالوں توشاید آنے والے زمانوں میں یہ بستی دوبارہ آبادہوجائے۔ کوئی معجزہ یا کرامت.....! ٹیوب ویل پرنہانے کے بعد اس نے بستی کی گلیوں میں گھومناشروع کردیا۔ راستے ہی اس کے رازدارتھے۔ کچے کوٹھوں کی محبتیں اس کی امین تھیں۔
موضوعِ سخن ایک ہی تھا۔ کس نے کہاں جابسیراکرناہے۔ لوگ منصوبہ بندی کررہے تھے۔ اپنے تباہ شدہ گھروں کا ملبہ لے جانے کا سوچ رہے تھے۔ سب کے اذہان میں ایک ہی خوف پرورش پارہاتھا کہ وہ جاکرجہاں بھی ٹھکانہ بنائیں گے وہ جگہ ’’ڈِنگ‘‘ نہیں ہوگی۔ دریائے سندھ کا مغربی کنارہ نہیں ہوگا۔ وہ کوئی اوربستی ہوگی۔ نیانام، اسے اپنی پہچان کے لیے صدیاں درکارہوں گی۔
بشارت احمد گھومتے گھومتے مہاجرین کے ڈیرے پرپہنچا توپنچایت کا سماں تھا۔ فجردین اونچی آواز میں بول رہاتھا۔ باب الدین کو اپنی دکان کے علاوہ یہ فکربھی دامن گیرتھی کہ مہاجرین کی نئی بستی کا نام کیاہوگا.....؟
فجردین نے بارعب آوازمیں کہا ’’بستی کے نام کی فکرنہ کھاؤ۔ میرے پوتے کے نام سے طاہرآبادموسوم کرلینا، ضروربڑاآدمی بنے گا اوراس بستی کا نام روشن کرے گا۔ مکانوں کے ملبے کا سوچو، جو سوچنے کی بات ہے۔ یہ کیسے لے کرجاناہے؟ اُجڑے توسب کو ایک ہی جگہ جاکرآبادہونا ہے نہیں توہم اپنی شناخت کھوبیٹھیں گے۔
بالکل..... بالکل..... فجردین نے ٹھیک بات کی ہے۔ تائید میں کئی آوازیں ابھریں۔ بشارت احمد ان کی باتیں سنتارہا اورکڑھتارہا۔ شیشم تلے رکھے مٹکے میں سے اس نے پانی کا کٹورا پیٹ میں اتارا۔ اس کے اندرجلن بڑھنے لگی۔ جیسے گیلی لکڑیاں سلگ رہی ہوں اوردھواں بے چین کررہاہوں۔ ان لوگوں کے قلوب میں بستی اجڑنے کا ملال کیوں نہیں ہے؟ یہ تونئی بستی، نئے جہانوں کا سوچ رہے ہیں۔ یہ کل ہی کی توبات ہے، دریائے سندھ کے کنارے گھوڑوں کی ’’چپلی‘‘ ہوئی ہے۔ فجردین اورباب الدین بھی موجودتھے۔ نوجوان وکیل، قریشی خاندان کے افراد، پوری جمالے خیل برادری، امیر، غریب سب موجودتھے۔ چپلی بشارت احمد کا پسندیدہ کھیل تھا۔ جس روز چپلی ہوتی، بھنوں مراثی ڈھول کی تھاپ پرڈِنگ کی گلیوں میں دھول اڑاتا، چپلی کے انعقادکا اعلان کرتا۔ اگلی صبح بستی کے بانکے سجے سجائے گھوڑوں پربیٹھے اپنی پگڑیاں اپنے دونوں ہاتھوں سے سنبھالتے میدان کا رخ کرتے۔ گھوڑے دلکی چال چلتے، سم زمین پرمارتے، دھول اٹھتی۔ جوانوں کو ان کے ملازمین نیزے پکڑاتے۔ میدان کے بیچوں بیچ ایک نرم لکڑی گاڑدی جاتی۔ بھنوں مراثی اپنے ڈھول کی طنابیں کھینچتا۔ ماماپھتن مراثی اپنی گلابی پگڑی سرپراچھی طرح جماکرشہنائی منہ سے لگاتا۔ ڈھول کی تھاپ اورشہنائی کے سُرمیں جانو مراثی کی بین کی آواز مستی گھولتی توڈِنگ کے پنڈال میں آئے ہوئے ہزاروں لوگوں کے چہرے گلنارہوجاتے۔ سب کی نظریں میدان کے سرے پرکھڑے گھڑسوارپرہوتیں۔ گھوڑادھیمے دھیمے اگلے سم زمین پرمارتا، جوان نیزہ سنبھالتا اورگھوڑے کو ایڑ لگاکر ہزاروں نگاہوں کا مرکز بنتا۔ سرپٹ بھاگتے گھوڑے کی پیٹھ پراپنے آپ کو سنبھالتا، جونہی زمین میں گڑی وہ لکڑی جو کھجورکی لکڑی سے تیارکی جاتی تھی، جسے چپلی کہتے تھے، کے قریب آتا توگھوڑے پرپہلو کے پل جھکتا۔ جوان کا جھکنا، گھوڑے کا رفتارپکڑنا، بھنوں کا ڈھول پیٹنا، پھتن کی شہنائی اورجانو کی بین جب ہزاروں لوگوں کی تالیوں کی تھاپ شامل ہوتی توجوان اپنی نگاہیں چپلی پرجمائے اورجھکتا، نیزہ چپلی کے سینے میں پیوست ہوتا اورجوان نیزہ فضامیں بلندکرکے خوشی کا نعرہ بلندکرتا اوردورتلک بھاگتے گھوڑے اورپنڈال کے شورمیں عجب سرور اور سرداری کی کیفیت طاری ہوجاتی۔ جب سورج ڈھلنے پرگھڑسوارلوٹتے توگلیوں میں سے گزرتے ہوئے جیتنے والے جوان کو عورتیں دروازے کی اوٹ سے دیکھتیں۔ چوپالوں اورگھروں میں کئی دن تک چپلی کا تذکرہ رہتا۔
بشارت احمد کئی بارعالمِ تخیل میں گھوڑے پرسوارہوا۔ ڈھول کی تھاپ اوربانسری کی لَے پرہزاروں تالیوں کی گونج میں نیزے کی اَنی پرچپلی پروتا اورفخریہ سینہ پھلالیتا..... چپلی.....؟
طاہرآبادمیں چپلی کا کھیل تونہیں کھیلاجائے گا.....
بشارت احمد اپنے خیالوں کے حصارمیں چلتے ہوئے اس کچی آبادی کی طرف بڑھ رہاتھا جہاں بھنوں مراثی کا دکھ بھی اس نے اپنے اندربساناتھا۔ وہ کچے کوٹھے کے اندرداخل ہوا۔ بھنوں مراثی حقے کی نَے منہ میں دبائے دھواں پھیپھڑوں میں بھرتاکھانس رہاتھا۔ شیوبڑھی ہوئی اور آنکھیں اس کی لال انگارہ ہورہی تھیں۔ بشارت احمد دیرتلک اس کے پاس بیٹھارہا، چپ چاپ.....!
چاچابھنوں کچھ بولے گا بھی.....؟ اس نے خاموشی کا قفل توڑا۔
پُتر! میں کیا بول سکتاہوں؟ بولنے کو رہ ہی کیا گیاہے۔ ہمیں تواپنے کچے کوٹھوں کا غم کھائے جارہاہے۔ پختہ گھروں والے تواپنے ساتھ اینٹیں، گاڈر، ٹی آئرن اورٹائلیں تک سمیٹ لے جائیں گے۔ ہماراتوسب کچھ یہیں راکھ ہوجائے گا۔ ان مٹی کی دیواروں کو کہاں اٹھاکرلے جاسکتے ہیں۔ چھت بھی گھاس پھونس کے ہیں۔ نیاگھربسانے کو زمین بھی خریدنی ہے۔ سرچھپانے کو جانے کہاں جگہ ملے گی؟
چاچاغم نہ کھا..... اﷲ مالک ہے۔
وہ تو ہے پُتر، لیکن کبوترکی طرح آنکھیں بندکرلینے سے مسئلہ حل تونہیں ہوجائے گا۔ نئی جگہ پرہمارے دھندے کا جانے کیا ہوگا؟ وہاں ہمیں کون پوچھے گا.....
اچانک بھنوں کی آنکھوں میں اک چمک سی لہرائی۔
بشارت پُترپنڈی کیوں نہ ڈی ایس پی ملک خان محمد صاحب سے رابطہ کرلیں۔ شاید وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے بستی کو اجڑنے سے بچالیں۔
بے سُودہے چاچا..... بہت اوپریہ فیصلہ ہواہے۔
بھنوں کو اوپروالوں کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا۔ اس کی آخری امید بھی دم توڑگئی۔ وہ سوچتارہا، جانے حکومتیں چھت کیوں چھین لیتی ہیں۔
بشارت احمد نے بھنوں کا کندھاتھپتھپایا اوراجازت لی۔ اس کی روح بے چین تھی۔ وہ بے منزل راستوں پرچلتارہا۔ اس کے اندراُگے سوالات کے جنگل میں آگ لگ گئی۔ اس آگ کو بجھانے والا کوئی بھی تونہ تھا۔ وہ سوچتارہا، لوگ نئی بستی بسانے کی توبات کرتے ہیں۔ اس دم توڑتی ڈِنگ کا نوحہ کیوں ان کے اندردم توڑگیاہے.....؟ وہ سوچنے لگا جیسے انسان مرنے کے بعد اس دنیا میں لوٹ کر نہیں آتا، اسی طرح میری بستی بھی ہمیشہ کے لیے محکمہ مال کے کاغذات میں دفن ہوجائے گی۔ قیامت کے روز انسان کو تودوبارہ زندہ کیاجائے گا لیکن میری بستی میں روح کون پھونکے گا۔ میں اﷲ میاں سے کہوں گا ایک بارمیری بستی، میری ڈِنگ زندہ کردے میں اس کی گلیوں میں گھوم لوں، کیکرسے لپٹ لوں۔ ٹیوب ویل پرنہالوں، چپلی دیکھ آؤں۔ احمد قصائی کی دکان سے بابا کے کہنے پرگوشت لے آؤں۔ بس ایک بار، میرے اﷲ..... میری بستی.....! میں صابو نائی سے بال کٹوالوں۔ اس کے بیٹے خانو نائی سے مجھے ڈرلگتاہے۔ اسے توابھی اوزارپکڑنے بھی نہیں آتے۔ میرے اﷲ! میں اپنی بستی کی گلیوں میں شام ڈھلے گھروں کو لوٹتے ڈھورڈنگروں کے گلوں میں لٹکتی گھنٹیوں کی آواز سن لوں۔ بس ایک باربستی میں اپنا امرڈال دے۔ اسے زندہ کردے۔ میں تنورپرروٹیاں لگاتی اماں سبھو کے سامنے سے روٹی اٹھاکربھاگ جاؤں۔ مجھے گھروں میں اپلوں پرابلتے دودھ کی مہک اپنے اندربسالینے دے۔ دیکھ، تُو تودعائیں قبول کرنے والاہے۔ اربوں انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے والاہے۔ بس ایک بارمیرے اﷲ! میری بستی کو بھی زندہ کردے۔ میں تیری منت کرتاہوں، تیرے آگے ہاتھ جوڑتاہوں.....
وہ رات گئے تک بسترپرلیٹاچھت کے ورگے اورلاڑیاں گنتارہا۔ نئی بستی میں نامعلوم گھرکاخوف اس کے اندررینگتارہا۔ اسے دوچارروزپہلے کی ایک شادی کی تقریب یادآگئی۔ یہ رات یہ روایت بھی دم توڑجائے گی۔ وہ اپنے قدآورباپ ملک فتح شیر کے ساتھ ملک سکندرمستی خیل کے گھرپہنچا توچھپرتلے کوندرکی گھاس بچھی تھی۔ چھپرتلے لوگ آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے۔ اتنے میں مٹی کے پتروٹے ان کے سامنے چن دیے گئے۔ ’’مٹی کے کٹوے‘‘ میں پکاہوالذیذ سالن ان کے سامنے رکھاگیا۔ ’’لور‘‘ پرلگی بڑی بڑی چپاتیاں جو پھتو کمہاراورمیراں کمہاری نے اتاری تھیں۔ جو ان لڑکے گلے اورکمرکے گرد کَس کرکپڑاباندھے جھولابنائے اس میں روٹیاں ڈالے باراتیوں کے آگے رکھ رہے تھے۔ کھانے کے بعد ’’پتروٹوں‘‘ میں حلوہ دیاگیا۔
وہ ساری رات تقریب کے دوران سوچتارہا کہ جانے یہ لوگ کہاں جاآبادہوں گے۔ ان سے پھرملاقات کے سلسلے ہوں گے کہ نہیں.....؟
یہ مالٹے آپ بچوں کے لیے لائے ہیں..... اس کی بیوی نے پوچھا۔
وہ ایک دم چونکا..... نہیں..... اپنے لیے لایاہوں۔
کیا مطلب ہے؟
آج میں ڈِنگ جارہاہوں۔
کیا مطلب ہے آپ کا..... اس ویرانے میں؟
ہاں اسی ویرانے میں جہاں آبادی ہے۔
ہونہہ، آبادی.....! ان کھنڈرات میں حشرات الارض اوردرندوں کا بسیراہے۔ میں نہیں جانے دوں گی آپ کو.....
کچھ نہیں ہوگا۔
اس نے مالٹے اٹھائے اورچل دیا۔
وہ ڈِنگ والے پل کے آخری سرے پرپہنچا توفوجی چوکی پرچوکس جوانوں نے اسے روکا۔
کہاں جاناہے، آپ کو.....؟
اگراجازت ہو تومیں اپنی اجڑی بستی دیکھنے جارہاہوں۔ اس نے مسکراکرکہا۔
فوجیوں نے اسے جانے کی اجازت دے دی۔ فوجی چوکی سے دوفرلانگ کے فاصلے پرڈِنگ کی حدود شروع ہوتی تھی اورپہلا گھرسکندرمستی خیل کا تھا۔
دوفرلانگ..... صدیاں اس کے سامنے دیوارہوگئیں۔ مالٹوں کا وزن ایک دم بڑھ گیا اوراس کے کندھے دُکھنے لگے۔ چوتھائی صدی بعد وہ ان نارنجی کرنوں کی تلاش میں آیاتھا جو کیکر کی شاخوں میں اٹکی تھیں۔ اسے تویہ خبربھی نہیں تھی کہ کیکرزندہ بھی ہوگا یا نہیں۔
کچی پگڈنڈی پربشارت احمد نے قدم دھراہی تھا کہ اس کی مڈھ بھیڑغلام علی ہلالی سے ہوگئی۔
بشارت احمد کہاں کا ارادہ ہے؟
یار..... ڈِنگ جارہاہوں..... بشارت احمد عجلت میں تھا۔
وہاں توکچھ بھی نہیں۔ جنگلی پیڑکیکرہیں۔ حشرات الارض اوردرندوں کا بسیراہے۔ ایک روز میں بھی گیاتھا۔ ہم ہلالیوں کے گھروں کی جگہ پربھی اب کیکرہی کیکرہیں۔
غلام علی تمہاراگھرسکندرمستی خیل کے گھرکی دائیں جانب گلی میں مڑکر ملک عطا محمد جمالے خیل کے گھرسے تھوڑا پہلے بائیں جانب ہی تھا.....
ہاں.... توپھر..... یہ تم کیوں پوچھ رہے ہو؟
میں وہاں جاؤں گا، تمہاری ماں کے ہاتھ سے لسّی پیوں گا، تمہارے بابا سے فصلوں کی کاشت پرتبادلۂ خیال کروں گا۔
بشارت احمد..... حقیقت کی دنیا میں لوٹ آؤ۔ وہ بستی خواب کی دھول ہوگئی۔ اب توہم ہلالیوں کے گھرہماری سوچ کی طرح بکھرگئے ہیں۔ قاسم ہلالی کا گھرریلوے اسٹیشن کی شمالی سمت پانچ چھ گھروں کے درمیان اپنی تنہائی پرنوحہ کناں ہے۔ اس کا بوڑھا باپ غلام قادر گھنٹیا کا مریض ہے۔ وہ چارپائی پر اَسیر، شیشم تلے بیٹھا ڈِنگ میں گزری زندگی کی یادوں کے سہارے زندگی جی رہاہے۔ ہماراگھرخانقاہ سراجیہ کی نئی آبادی میں اپنی پہچان کھوبیٹھاہے۔ ملک حیات مرزے خیل نے ’’چاہ مرزے والا‘‘ کے نام سے موسوم جوبستی بسائی ہے وہاں بھی کچھ بے نام ونشاں ہلالی قوم کے افراد رہتے ہیں۔
غلام علی کی آنکھیں بھرآئیں۔
بشارت احمد سکندرمستی خیل کے گھرکے سامنے رکا۔ وہ جنگلی کیکروں کے درمیان کھڑاتھا۔ اس نے اونٹ ڈکرانے کی آواز سنی۔ وہی اونٹ جسے تڑکے تڑکے سکندرمستی خیل جوت کرکھیتوں کا رخ کرتاتھا۔ کیا اونٹ یہاں نہیں ہے؟ جانورکہاں چلے گئے۔ ان بے زبانوں کا تونام ونشان مٹ گیا۔ ہماری برادری جو مختلف شاخوں میں بٹی، پھربھی یک جان تھی۔ جانے کون کہاں جابسا.....؟ کتنے بھائی تھے..... کتنے.....؟ بشارت احمد نے ذہن پرزوردیا۔
ہمارے جدّامجد..... تین بھائی تھے۔ تلوکرخاندان انہی تین بھائیوں سے کتنا پھلاپھولا، بارآورہوا۔ کوئی توان کا نام، ان کی تاریخ بھی محفوظ کرلیتا۔ کیا وہ صرف محکمہ مال کے کاغذات میں ہی..... اس کی آنکھیں اشک بارہوگئیں۔
اس کی آنکھیں اشک بارہوگئیں۔ بشارت احمد کے اندر جھڑی لگ گئی۔ جھڑی اور بارش..... بارش جو کچے مکانوں کو کھاجاتی ہے، پختہ مکانوں کی بنیادیں کھوکھلی کردیتی ہے۔ بشارت احمد کے اندرجھڑی لگ گئی۔ اُسے لگا، وہ زمین بوس ہورہاہے۔ نام اس کے ذہن میں بے ترتیب ہوتے چلے گئے۔ ملک مستی خان، ملک مرزاخان، ملک ہستی خان، تینوں شاخیں برگ وبار لائیں۔ ملک مستی خان کی اولاد مستی خیل کہلائی۔ اسی شاخ میں احمد خان نامی نوجوان نے سلسلۂ نقشبندیہ میں نام پایا اورسرخیل الاولیاء ہوئے۔ مولانا ابوالسعد احمد خانؒ ..... ریلوے اسٹیشن کی مشرقی سمت انہوں نے ایک بستی بسائی اوراپنے شیخ خواجہ سراج الدینؒ کے نام پراس کا نام خانقاہ سراجیہ رکھا۔ ہستی خیل اسی بستی کی مشرقی سمت نہرکے اُس پارجاآبادہوئے..... ہم مرزے خیل.....! ہمارامرکز ڈِنگ تھا۔ ہم بکھرگئے۔ میرے مرحوم چچا عطامحمد، غلام محمد، محمدشیر اورماموں محمد افضل نے سامان ٹرالیوں پرلادا اورخانقاہ سراجیہ کی نئی آبادی میں ضم ہوگئے۔ دوست محمد نے چاہ مرزے والا جاڈیرہ لگایا۔
بشارت احمد نے ایک مالٹاچھیلا۔ وہ تاریخ کا طالب علم نہیں تھا لیکن تلوکرخاندان کی تاریخ، افراد اورکرداراس کے اندرکروٹیں لے رہے تھے۔ وہ داہنی جانب گلی میں مڑا۔ ایک نیولا اسے سراٹھاکردیکھ رہاتھا۔
وہ مسکرایا۔
یہ وہی نیولا ہوگا جو ہمارے گھرکیکرپرچڑھتے گلہری کو سراٹھاکردیکھاکرتاتھا۔ چوتھائی صدی پہلے بشارت احمد نے جو بستی اپنے اندرتعمیرکی تھی آج وہ اس کے دیوارودرسے لپٹ کر روناچاہتا تھا۔ اس نے اپنے مرحوم چچاملک عطامحمد کے چوبارے کی جگہ کو حسرت سے دیکھا۔ اسے ایسے لگا، اس کا چچا چارپائی کے پائے کے ساتھ تیترکی تھیلی لٹکائے ہاتھ میں تیترسنبھالے اسے سہلارہاہے۔ شیشم تلے تاش کے پتے بکھرے پڑے ہیں۔
اپنے گھرکی راہ لینے سے پہلے اس نے ’’ڈیرہ فقیراں والا‘‘ جانے کا فیصلہ کیا۔ ڈیرہ فقیراں والا ڈِنگ میں تقدس کی علامت تھا۔ وہ اپنی بستی کی اس مرکزی علامت کو کیسے نظرانداز کرسکتاتھا۔ وہ ٹیڑھے میڑھے راستوں پرچلتارہا۔ اس کے حافظے میں ساری یادیں، باتیں، دیوارودر، درخت، چرند پرند، مسجد کا لاؤڈسپیکر، آٹے کی چکی کی تُک تُک کی دل کش آواز، حتیٰ کہ کچی راہوں پرڈھورڈنگروں کا گوبربھی نہیں بھولاتھا جسے گاؤں کی غریب لڑکیاں اکٹھاکرکے سوکھ جانے پربطورِ ایندھن استعمال کرتی تھیں۔
اس کے قدموں میں صدیوں کی تھکن تھی۔ اس کے وجودمیں زمانے گم تھے۔ وہ چلتارہا، بے سمت، بے آواز قدموں کے ساتھ۔ اسے شرینہہ کے درخت کی تلاش تھی۔ جس کے سائے کا پھیلاؤ دوکنال تھا۔ اس گھنے شجرِ سایہ دارکے نیچے فقیرمحمد امیرسے لوگ ملنے کوآتے۔ جوق درجوق، قطاراندرقطار، بس ایک روحانی کشش انہیں کھینچ لاتی۔ لوگ اپنی باطنی تشنگی کی سیرابی کو اس چھتناور درخت کا رخ کرتے۔ فقیرمحمد امیرکاسایہ شرینہہ کے سائے سے کہیں زیادہ گھنا، میٹھا اورآرام دہ تھا۔ لوگ دعاؤں کی سوغات سے مالامال لوٹتے۔ مہمان نوازی اس گھرکے افرادکی گھٹی میں شامل تھی۔ بشارت احمد نے دورتلک نظردوڑائی۔ شرینہہ کا وجود کہیں نہیں تھا۔ لیکن فضامیں ایک مہک تھی۔ ایک فقیراوردرویش منش انسان کے وجودکی مہک، بان کی چارپائی پرآلتی پالتی مارے بیٹھے فقیرمحمد امیر.....! کُرتا ململ کا، تہمند باندھے چہرے پرکرنیں نورکی، سادگی کا مرقع، عہدِ صحابہ کی یادگار، انہی چودہ سوسال پہلے کی محبتوں کے امین، مہمان نواز ایسے کہ امراء وغرباء کے ہاتھ خود دُھلاتے، کھانا سامنے لاکرپروستے، ان کی باتیں سنتے غوراورتوجہ سے، دکھ بانٹتے، دائیں ہاتھ سے ان کے کام آتے، بائیں ہاتھ کو خبرتک نہ ہونے دیتے۔
بشارت احمد چھپرتلے بیٹھا شرینہہ کے سائے کو سرکتے ہوئے دیکھتارہا۔ شرینہہ کا سایہ نہیں اس کے سامنے وقت ڈھل رہاتھا۔ یا وہ خودڈھل رہاتھا۔ لوگ ایک ایک کرکے جارہے تھے۔ وہ تھا، فقیرمحمد امیرتھے اوریاد کی تیز ہواتھی، سب ریزہ ریزہ، کرچی کرچی..... وہ لوٹنا چاہتاتھا۔ اس کی جھولی دعاؤں سے بھرگئی تھی۔ اس کے قدموں میں صدیوں کی تھکن اوردھول تھی۔ وہ چلتارہا، چلتارہا۔
اپنے گھرمیں وہ ایسے لمحے داخل ہوناچاہتاتھا جب شام ڈھل رہی ہو اورنارنجی کرنیں کیکرسے لپٹ کرکُرلارہی ہوں۔ حکومت نے ہزاروں ایکڑ اراضی خالی کرالی تھی اورفیکٹریاں بہت دورمشرقی سمت تعمیرکی گئی تھیں۔ وہ سوچتارہا اورچلتارہا۔ اگریہاں کچھ بھی تعمیرنہیں ہوناتھا تومخلوقِ خداکو کیوں اُجڑنے کے عذاب میں مبتلاکیاگیا۔
وہ اپنے ماضی کی تلاش میں اس اجڑے کھنڈرمیں شاید کبھی نہ آتا لیکن جس روز خانقاہ سراجیہ، اس سے ملحقہ نئی آبادی، چاہ مرزے والا، سیفن پل، مافی والا، لال والا، سعید آباد، مدنی کے ڈیرے اورگردونواح میں پھیلے مکینوں میں یہ خبرگردش کرنے لگی کہ فیکٹریوں کے زہریلے اثرات کے پیشِ نظرایک بارپھرقریب آبادہوجانے والی بستیوں کو وہاں سے اٹھا لینے کا فیصلہ کیاگیاہے۔ یہ ہولناک خبرجنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی اوربشارت احمد اندرسے ٹوٹ پھوٹ گیاتھا۔ کیا ایک بارپھروہی عذاب ہوگا۔ فیصلہ بدل دینا کس کے بس میں تھا؟ جیسے بھنوں مراثی کو اوپروالوں کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا بالکل ویسے ہی ہرشخص بے بس اورمجبورتھا۔ اپنی سوچوں میں غلطاں وپیچاں بشارت احمد ’’ڈیرہ فقیروالا‘‘ سے جب راہوں کی دھول پھانکتا اپنی گلی میں داخل ہوا تو اس کے پاؤں من بھرکے ہوگئے۔ جیسے کشش ثقل بڑھ گئی ہو۔ قدم اٹھانا اسے دوبھر ہوگیا۔ اس نے اجڑے مکانوں کی بنیادوں کو غورسے دیکھا۔ مکانات کی جگہ جنگلی کیکراُگ آئے تھے۔ زرعی زمین جو حکومت نے ٹھیکے پردے رکھی تھی، اس لیے جب وہ ٹیوب ویل پرپہنچا توڈِنگ انگڑائی لے کر اس کے اندرزندہ ہوگیا۔ ٹیوب ویل چل رہاتھا۔ لمبے قد اور خشخشی داڑھی والا ایک بلوچ جس نے زمین ٹھیکے پرلے رکھی تھی، کھیتوں کو پانی دے رہاتھا۔
بشارت احمد کا دل بھرآیا۔
اس نے ٹیوب ویل سے ٹھنڈامیٹھاپانی پیا اورگھرکی طرف قدم بڑھائے۔ کانٹوں سے دامن بچاتے ہوئے وہ اپنے گھرکے صحن میں چوتھائی صدی بعد داخل ہوا۔ وقت تھم گیا۔ پرندوں نے پرواز روک لی۔ اسے اپنا آپ سنبھالنا مشکل ہوگیا۔ جانوروں کی چرنیاں جوں کی توں موجود تھیں۔ بس ان کا سیمنٹ اکھڑگیاتھا اوراینٹیں کلرزدہ ہوگئی تھیں۔ چھپرکی بنیادوں کو اس نے غورسے دیکھا۔ تانبے کے ایک گلاس پراس کی نظرپڑی، بالکل اچانک وہ چونکا، رویا اورگلاس اٹھا لیا۔ اپنے والد ملک فتح شیرکو یادکیا، چھلکا اورچھلکا، یہ وہی گلاس تھا جس میں اس کا بابا لسّی پیاکرتاتھا، شاید ماں سامان میں اسے ساتھ رکھنا بھول گئی۔ اس کا بابا اسے لڑکپن میں ہی حالات کے بے رحم دھاروں پرچھوڑگیاتھا۔ اس نے گلاس سنبھال لیا۔ اسے بہت بڑی سوغات ہاتھ آگئی تھی۔ گلاس اس کے ہاتھ میں تھا کہ اسے ماموں ملک محمد افضل کے گھرکی کھڑکیوں کے رنگین شیشے یادآگئے۔ لال، زرد، نیلے اورسبز رنگ کے شیشے، یادیں رنگین ہونے لگیں۔ اس کا ماموں بڑانفیس الطبع شخص تھا۔ ململ کا سفید کُرتا ان پربہت سجتاتھا۔ دورانِ گفتگو اس کے ماموں انگوٹھے اورانگشتِ شہادت کی چٹکی سے کُرتے کو کبھی کندھے اورسینے کے سامنے سے اٹھاتے، یہ ان کی خاص اداتھی۔ رنگین شیشے کہاں گئے؟ اس کے ماموں کی طرح ماضی کو سدھارگئے۔
اس نے کیکرکے تنے پرہاتھ رکھا تو رسّے جھول کرپینگ ہوگئے۔ اس کا جی چاہا وہ جھولا جھولے۔ بابا سے عیدی لے۔ گاؤں کی ہٹی سے ریوڑیاں اورٹانگریاں خریدے۔ ڈِنگ کی گلیوں میں کھیلتے رنگ برنگے کپڑے پہنے بچوں کے ساتھ عید منائے، پٹھوگرم کھیلے، والی بال کا میچ دیکھے، چپلی کے انعقادکااعلان ہو اوروہ دریائے سندھ کے کنارے کا رخ کرے۔
وہ کیکرکے ساتھ ٹیک لگائے کھڑاتھا۔ ایک بارپھراُجڑنے کا خوف اس کی رگوں میں اودھم مچارہاتھا۔ کسی لمحے کچھ بھی ہوسکتاتھا۔ وہ وہیں بس جاناچاہتاتھا۔ انہی کھنڈرات میں، کیکروں کی چھاؤں میں اپنی جھونپڑی بسالیناچاہتاتھا۔
وہ ایک پل کو سمیٹتالوٹ رہاتھا توایک دوسراپل اس کے سامنے پھیل رہاتھا۔ کاندھے جھکے ہوئے تھے۔ کہولت نے اسے ایک آن میں آلیاتھا۔ گھرپہنچا توشام ڈھل چکی تھی۔ ہرکہیں ملگجے اندھیرے میں سیاہی حلول کرگئی تھی۔ بسترپردراز ہوکراس نے آنکھیں موندلیں۔ یوں جیسے پھیلتا لمحہ اس طرح معدوم ہوجائے گا۔ مگرصدیوں کی تھکاوٹ اس کے بدن میں اترتی چلی گئی۔