دن ڈھل چکا تھا اور پرندہ سفر میں تھا

دن ڈھل چکا تھا اور پرندہ سفر میں تھا
سارا لہو بدن کا رواں مشت پر میں تھا


جاتے کہاں کہ رات کی بانہیں تھیں مشتعل
چھپتے کہاں کہ سارا جہاں اپنے گھر میں تھا


حد افق پہ شام تھی خیمے میں منتظر
آنسو کا اک پہاڑ سا حائل نظر میں تھا


لو وہ بھی خشک ریت کے ٹیلے میں ڈھل گیا
کل تک جو ایک کوہ گراں رہ گزر میں تھا


اترا تھا وحشی چڑیوں کا لشکر زمین پر
پھر اک بھی سبز پات نہ سارے نگر میں تھا


پاگل سی اک صدا کسی اجڑے مکاں میں تھی
کھڑکی میں اک چراغ بھری‌ دوپہر میں تھا


اس کا بدن تھا خوف کی حدت سے شعلہ وش
سورج کا اک گلاب سا طشت سحر میں تھا