دن بھر کی دوڑ رات کے اوہام وسوسے

دن بھر کی دوڑ رات کے اوہام وسوسے
ٹھنڈی سلونی شام کی خوش بو میں ڈھل گئے


کردار قتل کرنے لگے لوگ یوں کہ ہم
اپنے ہی گھر میں بیٹھ کے آوارہ بن گئے


رقص نسیم موت تھا ہر چند مختصر
دریا کے منہ پہ پھر بھی اچھل آئے آبلے


نازک ہے مثل ماہ مگر سرمئی بدن
اے جاں تجھے یہ کس نے دیئے غسل آگ کے