دلوں میں محبت کی محشر طرازی
دلوں میں محبت کی محشر طرازی
نظر سے نظر کی مگر بے نیازی
بہت ٹھوکریں راہ الفت میں کھائیں
مگر شوق کی ہے وہی حیلہ سازی
نہ رکھتا زمانے سے کوئی تعلق
خوشا خود فریبی زہے بے نیازی
رہے مطمئن ہو کے پامال الفت
کچھ ایسا تھا افسون بندہ نوازی
یہ کس کو خبر تھی کہ جان تمنا
ہے معصوم نظروں میں فتنہ طرازی
ابھر آئے کچھ اور تارے جبیں پر
مرے اشک غم کو ملی سرفرازی
ستاتی نہیں فکر منزل رسی اب
کہ راس آ گئی ہے سفر کی درازی
خطاؤں پہ ہے حرف گیری کہ واعظ
نہیں واقف شان بندہ نوازی