دلاسا دے کے بہلایا ہے دل کو

دلاسا دے کے بہلایا ہے دل کو
بڑی مشکل سے سمجھایا ہے دل کو


ترے غم نے جو چمکایا ہے دل کو
مثال آئنہ پایا ہے دل کو


تری الفت میں اے جان تمنا
زمانے بھر سے ٹکرایا ہے دل کو


خرد سے بے تعلق ہو گئے جب
جنوں کی راہ میں پایا ہے دل کو


زہے قسمت کہ حق گوئی کا جذبہ
مقام دار تک لایا ہے دل کو


کسی نے بزم میں نیچی نظر سے
سلام شوق پہنچایا ہے دل کو


وفا والوں نے غم کی لاج رکھی
وفا والوں نے اپنایا ہے دل کو


کسی نے پھیر کر دل سے نگاہیں
نہ پوچھو کتنا تڑپایا ہے دل کو


ہمیشہ رہروان آگہی نے
چراغ رہ گزر پایا ہے دل کو


کبھی جذبات کا پیکر بنایا
کبھی باتوں میں الجھایا ہے دل کو


نگارؔ اس شوخ نے اپنی نظر سے
خودی کا راز سمجھایا ہے دل کو