دل تو کیا جاں سے گزرنا آیا

دل تو کیا جاں سے گزرنا آیا
جی اٹھے لوگ جو مرنا آیا


صرف جب تک نہ ہوا دل کا لہو
حرف میں رنگ نہ بھرنا آیا


ہو گئے سارے سمندر پایاب
جب ہمیں پار اترنا آیا


فصل گل آئی تو ہر غنچے کو
زخم کی طرح نکھرنا آیا


جو نفس تھا وہ رہا گرم سفر
کب مسافر کو ٹھہرنا آیا


اک گل تر کی محبت میں ہمیں
کتنے کانٹوں سے گزرنا آیا


وہ ادب عشق نے بخشا کہ ہمیں
مدتوں بات نہ کرنا آیا


دل پہ اپنے جو پڑی ضرب ضیاؔ
ٹوٹ کر ہم کو بکھرنا آیا