دل تری یاد میں ہر لمحہ تڑپتا بھی نہیں

دل تری یاد میں ہر لمحہ تڑپتا بھی نہیں
بند ہو جائے تڑپنا یہ گوارا بھی نہیں


وہ نہیں پاس تو احساس رفاقت ہے سوا
غم تنہائی کے زنداں میں میں تنہا بھی نہیں


دشت دیوانوں سے آباد ہوئے جاتے ہیں
اب تو جاگیر کسی قیس کی صحرا بھی نہیں


سنگ دشنام برستے رہے ہر جانب سے
سخت جاں دل ہی کچھ ایسا تھا کہ ٹوٹا بھی نہیں


کر تو لوں ترک تمنا کا ارادہ لیکن
قہر یہ ہے وہ فسوں گر ستم آرا بھی نہیں


رنگ کیوں اڑ گیا گلشن کے ہوا داروں کا
گرم جھونکا کوئی اس راہ سے گزرا بھی نہیں


سرد ہے مرگ صفت مصر جنوں کا بازار
خواب یوسف بھی نہیں خواب زلیخا بھی نہیں