دل سے ہر گزری بات گزری ہے
دل سے ہر گزری بات گزری ہے
کس قیامت کی رات گزری ہے
چاندنی نیم وا دریچہ سکوت
آنکھوں آنکھوں میں رات گزری ہے
ہائے وہ لوگ خوب صورت لوگ
جن کی دھن میں حیات گزری ہے
تمتماتا ہے چہرۂ ایام
دل پہ کیا واردات گزری ہے
کسی بھٹکے ہوئے خیال کی موج
کتنی یادوں کے سات گزری ہے
پھر کوئی آس لڑکھڑائی ہے
کہ نسیم حیات گزری ہے
بجھتے جاتے ہیں دکھتی پلکوں پہ دیپ
نیند آئی ہے رات گزری ہے