دل سمندر تھا لیکن یہ تشنہ لبی

دل سمندر تھا لیکن یہ تشنہ لبی
میری قسمت میں کس روز لکھی گئی


آنکھ پر نم مگر مسکراہٹ مری
کہہ رہی تھی کہانی مرے عشق کی


عشق کے سیل کو روکنے کے لیے
غم کی دیوار رستے میں رکھ دی گئی


ظلمتیں سہہ گیا میں اسی آس پر
چاند نکلا تو جائے گی تیرہ شبی


دل ربا شہر کے کچھ سے کچھ ہو گئے
میری منزل مسلسل وہی کی وہی


خار چبھتے گئے خار چنتا گیا
تھا پرستار گلزار عاکف غنیؔ