دل پہ گزری جو زباں تک نہیں لانے والے

دل پہ گزری جو زباں تک نہیں لانے والے
ہم ہیں زخموں کے بہت ناز اٹھانے والے


کیسی بستی ہے خدا جانے یہ اسرار ہے کیا
لوٹ کر پھر نہیں آتے کبھی جانے والے


تو بہت شور مچاتا ہے مرے پہلو میں
ہم تری بات میں اے دل نہیں آنے والے


اپنی بربادی کا ہم کو تو کوئی غم بھی نہیں
کیوں قیامت یہ اٹھاتے ہیں زمانے والے


تجھ کو فرصت نہیں دنیا تو کوئی بات نہیں
قصۂ درد کہاں ہم بھی سنانے والے


بیچ رستہ میں بدل لی ہیں جو راہیں تم نے
دور تک ہم بھی کہاں ساتھ تھے جانے والے


اپنی مٹی کی محبت میں ہوئے خوار ندیمؔ
گاؤں کو چھوڑ کے جاتے رہے جانے والے