دل نہیں ہے تو جستجو بھی نہیں
دل نہیں ہے تو جستجو بھی نہیں
اب کوئی شہر آرزو بھی نہیں
عشق آزاد ہے کشاکش سے
نامہ بر بھی نہیں عدو بھی نہیں
حال و احوال کچھ نہیں معلوم
ایک مدت سے گفتگو بھی نہیں
ہر حوالہ نئی کتاب سے ہے
کوئی ایضاً کوئی ہمو بھی نہیں
مہرباں ہے تو اپنے مطلب سے
ورنہ وہ ایسا نرم خو بھی نہیں
اب بس آنکھوں سے دل نکل آئے
اشک بھی خشک ہیں لہو بھی نہیں
حق و باطل کی بات ہی کیا ہے
تیغ کو ہیبت گلو بھی نہیں
آخر کار کچھ تو ٹوٹے گا
شرط توبہ بھی ہے سبو بھی نہیں