دل میں رکھ زخم نوا راہ میں کام آئے گا
دل میں رکھ زخم نوا راہ میں کام آئے گا
دشت بے سمت میں اک ہو کا مقام آئے گا
اس طرح پڑھتا ہوں بہتے ہوئے دریا کی کتاب
صفحۂ آب پر اک عکس پیام آئے گا
قریۂ جاں میں تھے یادوں کے شناسا چہرے
اجنبی شہر میں کس کس کا سلام آئے گا
مصلحت کیش تو گلہائے ستائش سے لدے
سچ کے ہاتھوں میں وہی زہر کا جام آئے گا
رقص رفتار سے کیا روند چلا پھولوں کو
آگ پر چل کہ تجھے لطف خرام آئے گا
خنجر زہر وفا دل میں چھپائے کب سے
منتظر ہوں کہ ادھر وہ سر شام آئے گا
دیدۂ دل سے ظفرؔ خواب بھی چھن جائیں گے
وقت کہتا ہے کہ اب ایسا نظام آئے گا