دل میں لیے اوہام کو اس گھر سے اٹھا میں
دل میں لیے اوہام کو اس گھر سے اٹھا میں
خالی کہاں بت خانۂ آذر سے اٹھا میں
یوں ہے کہ زبردستی اٹھایا گیا مجھ کو
ایسے تو نہیں کوئے ستم گر سے اٹھا میں
احباب میں دل کھول کے اب جشن منا لے
لے آج ترے صحن معطر سے اٹھا میں
اک بوجھ اٹھائے ہوئے آنکھوں میں کٹی شب
اک اسم کو پڑھتے ہوئے بستر سے اٹھا میں
تو عالم رویا میں مجھے چھوڑ کے پلٹا
پھر چونک کے خود اپنے برابر سے اٹھا میں
تھاموں گا نہیں اب کے مناجات کا دامن
دل تجھ سے اٹھا اور ترے در سے اٹھا میں