دل کو یکسوئی نے دی ترک تعلق کی صلاح

دل کو یکسوئی نے دی ترک تعلق کی صلاح
اے امید وصل جاناں کیا ہے اب تیری صلاح


جب جفا جو نے تغافل سے بھی کی قطع نظر
ہو رضائے یار پر شاکر یہ ہے دل کی صلاح


ہوش میں جلوہ دکھانے سے اگر ہے اس کو عار
ہے وداع ہوش کی ہر حال میں اپنی صلاح


نقد جاں دل دار کرتا ہے طلب میں کیا کروں
بندگی بے چارگی پر اب تو ہے میری صلاح


منزل عشق و فنا کرنی ہے طے سر تا بہ سر
شمع کے مانند جل بجھنے کی ہے میری صلاح


صاف کہتا ہے کہ تو نیکی کر اور دریا میں ڈال
دل مرا دیتا ہے مجھ کو آج نیکی کی صلاح


بے تمنائی میں ساحرؔ میں ہوں ہر دم میرے ساتھ
دور کر دل سے تمنا ہے یہ جاناں کی صلاح