دل کی لگی کے ساتھ عجب دل لگی رہی
دل کی لگی کے ساتھ عجب دل لگی رہی
ظالم سے دوستی میں بھی اکثر ٹھنی رہی
وہ دور ہو گئے تو یہ الجھن بنی رہی
شاید مرے خلوص میں کوئی کمی رہی
محفل میں ان کی پاس ادب بھی ضرور تھا
خاموش تھی زبان نظر بولتی رہی
اوصاف عاجزی کے تکبر نے کھا لئے
کردار نسل نو میں کہاں عاجزی رہی
دیتا رہا جہاں کو ہر اک سانس کا حساب
کیسی عذاب جاں یہ مری زندگی رہی
گم کردہ راہ شوق رہا میں تمام عمر
منزل اگرچہ راہ مری دیکھتی رہی
قیصرؔ اٹھو کہ آگ لگی ہے مکان میں
جل جاؤ گے جو تم میں یوں ہی بے حسی رہی