دل کی دھڑکنوں سے اک داستاں بنانا ہے

دل کی دھڑکنوں سے اک داستاں بنانا ہے
آپ کی نگاہوں کو ہم زباں بنانا ہے


ماہ و خور اگانے ہیں کہکشاں بنانا ہے
اے زمیں تجھی کو اب آسماں بنانا ہے


گل فروش تھا مالی ہو گیا چمن خالی
آج پتے پتے کو باغباں بنانا ہے


اپنے سرخ ہونٹوں کی مسکراہٹیں دے دو
بجلیوں کی یورش میں آشیاں بنانا ہے


باندھ کر کفن سر سے یوں کھڑا ہوں مقتل میں
جیسے سرفروشوں کا کارواں بنانا ہے


میری زندگی میں تم اپنی دل کشی بھر دو
وقت جیسے ظالم کو مہرباں بنانا ہے


آج ان کی آنکھوں سے جھانکتی ہیں تلواریں
دل کی آرزؤں کو سخت جاں بنانا ہے