دل کی آخری تہہ میں
بے کلی نہ بے زاری
نے کوئی اداسی ہے
دیکھنے کو لہجے میں
خفگیاں نہیں ملتیں
ایک چپ سی ہے لیکن
گفتگو کے زمزم کو
روک روک دیتی ہے
ہر ادائے بے پروا
تھام تھام لیتی ہے
بولنے سے پہلے جو
سوچنے کو کہتی ہے
ہر سخن مکمل ہے
پھر بھی حرف کہتے ہیں
بات نا مکمل ہے
قربتوں کی بارش میں
اک گریز کا لمحہ
اب بھی دھل نہیں پایا
ہاتھ سے تدبر کے
ذہن و دل کی الجھن کا
اک خفیف سا ریشم
اب بھی کھل نہیں پایا
زخم بے یقینی کا
مندمل ہوا لیکن
روگ کی اکائی تو
اب بھی سانس لیتی ہے
وقت کے سلیقے نے
دکھ کی ایک سلوٹ پر
اک دھلی ہوئی مسکان
کھول کر بچھا دی ہے
آس پاس رہ کر بھی
صبح و شام کرنے میں
اس قدر نہ کھو جانا
بے خبر نہ ہو جانا
دل کی آخری تہہ میں
کوئی بات رہتی ہے