اس رمضان کفالت یتیم سے کیجیے رسول اللہﷺ سے قربت کا انتظام
دل، ہمارے جسم کا ہر لحاظ سے مرکزی حصہ کہا جاسکتا ہے ۔ اگر دل صحت مند ہے تو تمام جسم صحت مند ہے اور اگر خدانخواستہ دل بیمار ہوجائے اور اپنا وظیفہ یا فنکشن درست طور نہ کرپائے تو پورے جسم کی قوت کسی کام کی نہیں۔ یہ دل کی جسمانی لحاظ سے اہمیت ہے لیکن اس سے بڑھ کرقرآن و سنت میں دل کو اس کی روحانی حیثیت کے باعث بھی انتہائی اہم گردانا گیا ہے۔ چنانچہ ایسی بہت سی آیات و احادیث ہیں جن میں دل کی اس حیثیت اور اس کی روحانی بیماریوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سورۃ الحج کی آیت چھیالیس میں اللہ کی آیات سے انکار کرنےوالوں کو مخاطب کرکے ان کے دلوں کے بارے میں کہا گیا:
کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِن کے دل سمجھنے والے اور اِن کے کان سُننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔
اسی طرح جب کفار کو اللہ تعالیٰ کی آیات سنائی جاتی تھیں کہ وہ سنیں ، سمجھیں اور ایمان لائیں ، تو وہ کہا کرتے تھے کہ :
اور کہتے ہیں ہمارے دلوں پر غلاف ہیں ، نہیں بلکہ الله نے ان کے کفر کے سبب سے ان پر لعنت کی ہے سو بہت ہی کم ایمان لاتے ہیں۔ (البقرۃ ، ۸۸)
دل کی جسمانی بیماریوں کی طرح روحانی بیماریاں بھی ہیں اور ان روحانی بیماریوں میں سب سے زیادہ شدید بیماری اس کی سختی ہے یعنی شقاوت قلب۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے لوگوں کی طرف سے حق کے انکار کا ذکر کرتے ہوئے قرآن دلوں کی سختی کی مثال اس طرح دیتا ہے:
مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کار تمہارے دل سخت ہوگئے، پتھروں کی طرح سخت، بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے، کیونکہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے، اللہ تمہارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے۔ (البقرۃ:۷۴)
گویا دل کی سختی ایک بہت خطرناک روحانی بیماری ہے ، یہ انسانوں سے محبت کی جگہ نفرت سکھاتی ہے اور انسانیت کے رتبے سے گرا کر انسان کو حیوان ِمحض بنا دیتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دل کی سختی کا علاج کیا ہے۔ یہ علاج ہمیں کہیں اور نہیں بلکہ رحمۃ للعالمین ، شافع المذنبین اور خاتم النبیینﷺ کی حدیث مبارکہ میں اس طور ملتا ہے:
حضرت سیدنا ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں دل کیسختی کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر اور مساکین کو کھانا کھلا۔‘‘
اسی طرح کی ایک اور حدیث حضرت ابودرداؓ سے مروی ہے:
وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے قسوت قلبی کی شکایت کی تو آپﷺ نے فرمایا ، کیا تو چاہتا ہے کہ تیرا دل نرم ہو اور تیری حاجت پوری ہو ، یتیم پر رحم کیا کر اور اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیر اور اسے اپنا کھانا کھلا تیرا دل بھی نرم ہوگا اور تیری حاجت بھی پوری ہوگی۔
یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنے یا رکھنے سے مراد ہے اس کی ضروریات پوری کرنا۔ گویا جو شخص یہ عمل کرے گا، اللہ تبارک و تعالیٰ اسے شقاوت قلبی جیسی روحانی بیماری سے محفوظ فرمادے گا اور اس کے دل کو نرم کردے گا۔
دیگر کئی احادیث مبارکہ میں بھی ہمیں یتیموں کی کفالت اور ان کی ضروریات پوری کرنے پر اجر عظیم کی خوش خبری سنائی گئی ہے۔ بلکہ سب سے بڑھ کر یتیم کی کفالت کرنے والے شخص کے لیے جنت میں دنیا بھر کے یتیموں کے والی و آقا رسول اللہ ﷺ کی معیت اور قربت کی بشارت بھی دی گئی ہے۔چنانچہ ایک صحیح حدیث میں آپﷺ نے فرمایا: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں شہادت اور بیچ کی انگلی کی قربت کی طرح قریب اور ملے ہوں گے۔‘‘(سنن ابی داؤد)
رمضان المبارک میں جہاں ہم دیگر نیکیاں حاصل کرنے اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندے بن جانے کی کوشش کرتے ہیں، وہیں اس سال کوشش کیجیے کہ یتیم کی کفالت کے ذریعے ہم اپنے پیارے حبیبﷺ کی قربت و معیت بھی حاصل کرپائیں۔ اپنے دل کی سختی کو بھی دور کرلیں اور اپنے لیے جنت میں اللہ تعالیٰ سے جگہ بھی حاصل کرلیں۔ پاکستان میں گزشتہ تقریباً ایک عشرے سے بڑی فلاحی تنظیمات جیسے الخدمت فاؤنڈیشن، غزالی ٹرسٹ، ہیلپنگ ہینڈ،ریڈ فاؤنڈیشن، اخوت اور دیگر اداروں کی جانب سے پندرہ رمضان المبارک کو یتیم بچوں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے، اور اس دن ہر صاحب ثروت سے یتیم بچوں کی کفالت کے لیے خصوصی اپیل کی جاتی ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اس اپیل کے جواب میں ہم کم از کم کسی ایک یتیم بچے کی کفالت کی ذمہ داری ضرور لے لیں۔